کرونا وائرس اور انسانی رویے

اس مصیبت میں ہم سب ساتھ ہیں، صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں۔ آپ گھبرا کر خوراک کی ذخیرہ اندازی نہ کریں اس سے مسئلہ بڑھے گا۔

اسلام آباد میں چابیاں بنانے والا ایک شخص  فیس  ماسک پہن کر  آرام کر رہا ہے (اے ایف پی)

جب سے کرونا کی وبا پھیلنا شروع ہوئی ہے تمام میڈیا اور حکومتوں کی توجہ اس صورت حال پر مرکوز ہے۔ یقیناً ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حالات میں بھی بہت سی مثبت چیزیں سامنے آئی ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ اللہ کا شکر ہے اب تک پاکستان میں اموات بہت کم ہوئی ہیں اور امید ہے انشا اللہ ہم اس پر قابو پا لیں گے۔ سندھ حکومت نے جو اقدامات کیے وہ قابل ستائش ہیں۔ تمام صوبوں کے وزرا اعلیٰ کو ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ معلومات کا بروقت تبادلہ ہو اور صورت حال قابو میں رہے۔

پچھلے سو سالوں میں کئی وبائیں پھیلیں جن میں سپینش فلو بےانتہا مہلک تھی اور اس وبائی مرض سے لاکھوں لوگ اپنی جان سے گئے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے اب تک اموات چند ہزار ہوئی ہیں لیکن بین الاقوامی ادارہ صحت نے اتنی تیزی سے حکومتوں کو خبردار کیا کہ وہ وقت پر احتیاطی تدابیر لاگو کر پائیں جس کی وجہ سے امید ہے بہت جلد اس پر قابو پا لیا جائے گا۔

کرونا وائرس کا خوف دو وجہ سے ہے۔ ایک تو یہ بہت تیزی سے ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں منتقل ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ چونکہ یہ ایک نیا وائرس ہے لہٰذا اس کی دوا موجود نہیں۔ مگر تمام سائنس دان متفق ہیں کہ یہ انفلوئنزا یعنی فلو کی ہی ایک نئی قسم ہے۔

سائنس دان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انسانی مدافعتی نظام اس کا باآسانی مقابلہ کر سکتا ہے مگر وہ لوگ جو پہلے سے بیمار یا کمزرو ہیں، ان کے لیے یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکہ اور یورپ کی تحقیقی یونیورسٹیوں نے یہ تجربات بھی کیے ہیں کہ کیا ملیریا کی دوا کونین اس مرض کا علاج ثابت ہوسکتی ہے۔ فی الحال یہ ثابت نہیں ہوا لیکن اب تک جو تحقیقاتی کام ہوا ہے اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔

سائنس دان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بالآخر انسان کا اندرونی مدافعاتی نظام اس جرثومے کے خلاف جسم کے اندر لڑنے کی صلاحیت پیدا کر لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انگلستان کی حکومت نے بہت زیادہ پابندیاں نہیں لگائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے پوری دنیا سے معلومات اکھٹی کر کے اسے ایک ویب سائٹ پر ڈالنے کا بھی بندوبست کیا ہے تاکہ بروقت معلومات لوگوں اور حکومتوں تک پہنچ سکیں اور بعد میں یہی تمام معلومات تحقیق کے لیے میسر ہوں۔

اٹلی اور ایران میں یہ وبا بہت تیزی سے پھیلی اور اموات بھی بہت زیادہ ہوئیں۔ سائنس دان اور محقق اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ کیا ان دو ملکوں کی ثقافت، موسمی ماحول، حکومتی اقدامات اور طبعی حالت باقی علاقوں سے مختلف تھی جس کی وجہ سے ان دو ملکوں میں یہ خاص طور پر بہت تیزی سے پھیلا۔ اس سے بھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

وبا سے انسانی جانوں کا تو نقصان ہوا ہی مگر اصل پریشانی یہ ہے کہ بہت سے ملکوں کی معیشت کو سخت دھچکہ پہنچا ہے اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے ملکوں نے پلان تیار کیے ہیں۔ پاکستان کے مزکزی بینک کو بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور وہ شرح سود کو کم از کم اتنا گھٹائے کہ کاروبار میں کچھ تیزی آئے۔

میں آخر میں تمام لوگوں سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس مصیبت میں ہم سب ساتھ ہیں، صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں۔ آپ گھبرا کر خوراک کی ذخیرہ اندازی نہ کریں اس لیے کہ اس سے مسئلہ بڑھے گا اور سب کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ اگرآپ ہفتے میں آٹھ کلو آٹا استعمال کرتے ہیں تو 10 کلو خرید لیں مگر اس سے زیادہ نہیں۔

ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا پڑوسی محروم نہ رہے۔ احتیاطی تدابیر ضرور کریں جیسا ہاتھ دھونا اور گھر سے باہر ماسک کا استعمال مگر وبا آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے اور انسانی جسم اس کے خلاف تیار ہو رہا ہے۔ اگر تحقیق مکمل ہونے کے بعد ملیریا کی دوا اس میں کارآمد ثابت ہو گئی تو بہت کم خرچے میں مریض اس کا علاج بھی لے سکیں گے۔

معلومات سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں مگر افواہوں کو آگے مت بڑھائیں کیونکہ اس وقت بے پناہ افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم ہر مشکل وقت میں ایک جسم اور جان ہو جاتی ہے جیسا زلزلے اور سیلاب میں ہوا انشا اللہ اس وبا کے خلاف بھی ہم سب ایک ہوں گے اور اسے شکست دیں گے۔

وفاقی حکومت سے غلطیاں ضرور ہوئیں مگر امید ہے سندھ حکومت کی طرح باقی بھی اقدامات کریں گے۔ ہمیں اس معاملے میں ان کی جتنی ہو سکے مدد کرنی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ