کرونا: ہزارہ برادری پھر نشانے پر

اس بحران کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو ایک اور گھمبیر معاملہ سامنے آتا ہےاور وہ یہ ہے کہ حکومتی اہل کار اور ادارے بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ جیسے کثیرالقومی اور کثیرالسانی خطے میں کیسے کسی قوم کے بارے میں بات کریں جس سے اس کی تذلیل یا دل آزاری نہ ہو۔

اب یہ بلوچستان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی سرکاری خط و کتابت او رروابط میں کسی قوم، فرقہ اور قبیلے کا اس طرح سے نام نہ لے کہ باقی لوگ ان کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہوں۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومتِ بلوچستان ایک طرح سے کرونا (کورونا) وائرس پھیلانے کی ذمہ داری صوبے میں مقیم ہزارہ قوم پر ڈال رہی ہے۔

کمیشن نے کہا  ہےکہ اسے افسوس ہے کہ سرکاری اہل کار کرونا وائرس کی آڑ میں ایک ایسی قوم کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں جو پہلے ہی سے ظلم کا شکار ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ وائرس کسی مذہب، قوم اور سرحد کا لحاظ نہیں کرتا اور اسے جواز بنا کر ایک مخصوص قوم کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے ہزارہ قوم کے دو اکثریتی علاقوں یعنی مری آباد اور ہزارہ ٹاون کو مکمل طور پرلاک ڈاؤن کیا ہوا ہےاورایک سرکاری ادارے (واسا) نےاپنے ملازمین کو وہاں جانے سے روک دیا ہے۔

بیان میں اس امر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ چونکہ ایران سے واپس آنے والے بیشتر زائرین کا تعلق ہزارہ قوم سے ہے تو حکومت نے یہ کہہ کر ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے پولیس اہل کاروں کو اس شبہ کے بنیاد پر دو ہفتوں تک کام پر نا آنے کا حکم دیا ہے۔ انہیں شک ہے کہ ان میں سے کسی پولیس اہل کار کے کسی رشتہ دار کو کرونا وائرس لگا ہو اور اسی کی وجہ سے باقی پولیس فورس میں  یہ نہ پھیل جائے۔ سوشل میڈیا پر بعض تنگ نظر لوگ اس وائرس کو ’شیعہ وائرس‘ کا نام دے رہے ہیں اور یہ تاثرعام کیا گیا ہے کہ شیعہ زائرین ایران سے وطن واپس آ کر اس وائرس کو مزید پھیلائیں گے۔

کمیشن کو خدشہ ہے کہ جوں جوں کرونا وائرس پورے پاکستان میں پھیلتا جائے گا اور ملک کے شعبہ صحت پر بھی بوجھ بڑھتا جائے گا تو ہزارہ قوم کی جانب اپنائےگئے اس غیرذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے انہیں ( ہزارہ قوم کو) کرونا وائرس کےعلاج و معالجہ کی سہولیات سے محروم کیا جائے گا۔ آخرمیں کمیشن نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کو کرونا وائرس کے روک تھام کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا ہے لیکن پاکستانی احکام کو چاہیے کہ وہ مذہب اور عقیدہ سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے تحفظ کا بندوبست کریں اور سب کو یکساں طور پر طبی امداد فراہم کریں۔

کرونا وائرس کہاں سے آیا اور اسے پاکستان کون لایا اور اس کی روک تھام کے لیے حکومت نے جو اقدامات کی ہیں کیا وہ کافی ہیں یا نہیں، اس پر کافی بحث ہوچکی ہے لیکن ایک معاملہ جس پر کم توجہ دی گئی ہے وہ یہ کہ بلوچستان میں کرونا وائرس کی  وجہ سے پید اہونے والی صورت حال  کو کس طرح شیعہ برادری اور ہزارہ قوم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ درست ہےکہ جب کوئی قدرتی ا ٓفت آتی ہے  تو اس کے ساتھ ساتھ افراتفری بھی پھیل جاتی ہے اور ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کے لیے دوڑتا ہے لیکن بلوچستان کے تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرونا وائرس کے بہانے چند عناصر صوبے کی شیعہ مسلک اور ہزارہ قوم کے خلاف نفرتیں اور غلط فہمیاں بڑھانے میں خاصا سرگرم ہوگئے ہیں۔ باقی ملک نے ’تفتان‘ اور ’زائرین‘ کےالفاظ قومی میڈیا میں کرونا وائرس  سے پہلے شاید کبھی اتنا نہیں سنا ہے لیکن بلوچستان کا تو زائرین سے ایک پرانا رشتہ ہے۔ ایک ایسا رشتہ جس سے بہت ہی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ مثلاً 20ستمبر2011 کی وہ سہ پہر کون بھول سکتا ہے جب کوئٹہ سے تفتان جانے والی شیعہ زائرین کی بس پر ’نامعلوم افراد‘ نے حملہ کر کے 26  زائرین کو قتل کیا؟

کوئٹہ میں ہزارہ اور شیعہ برادری کے خلاف ایک طبقہ کئی سالوں سے سررم رہا ہے جس نے اپنی مسلح کارروائیوں سے ان کی نسل کشی کی ہے۔ ماضی میں جب  وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو ہزارہ قوم کے آنسووں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ قوم تشدد کی وجہ سے کتنا متاثر ہو چکی ہے تو انہوں نےاپنے روایتی غیر سنجیدہ انداز میں پوچھا ’تو میں کیا کروں؟ میں ان کے لیے ٹشو پیپر کا ٹرک بھیج سکتا ہوں (تاکہ وہ اپنے آنسو پونچھ لیں)۔‘ لیکن لگتا ہےکہ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ حکومت بلوچستان کے اسی بے حس رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

جو لوگ اس معاملہ، اس کے پس منظر اور اثرات کے بارے میں مزید پڑھنا چاہتے ہیں وہ 29 مارچ کو روزنامہ ڈان میں سجاد حسین چنگیزی کا مضمون ضرور پڑھیں جس میں انہوں نےاس معاملے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح بلوچستان میں عام آدمی تواپنی جگہ، صوبائی چیف سیکرٹری تک تول کر نہیں بولتے اور غلط تاثر دے رہے ہیں۔

کرونا وائرس نےصحت کے شعبہ میں حکومتی صلاحیتوں کے بارے میں تو بہت کچھ عیاں کر دیا ہے لیکن اگر اس بحران کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو ایک اور گھمبیر معاملہ سامنے آتا ہےاور وہ یہ ہے کہ حکومتی اہل کار اور ادارے بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ جیسے کثیرالقومی اور کثیرالسانی خطے میں کیسے کسی قوم کے بارے میں بات کریں جس سے اس کی تذلیل یا دل آزاری نہ ہو۔ وزیراعلیٰ جام کمال کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کی بیوروکریسی کو ایسی تربیت کی فی الفور ضرورت ہے کہ وہ کسی قوم، فرقہ، یا مذہب کو سٹیروٹائپ نہ کریں ۔یہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے کہ اس سے کرونا وائرس کے بحران کے بعد بھی اس وقت تک نجات نہیں ملے گی جب تک ایسے رویے کی اصلاح نہ کی جائے اور ایسے رویے پر سزا مقرر نہ ہو۔ 

سوچنے کی بات ہے کہ بلوچستان پولیس میں کون شخص یہ ’دانشمندانہ‘ فیصلے کرتا ہے کہ چونکہ ہزارہ قوم کے اہلکاروں کا تعلق شیعہ برادری سے ہے تو انہیں چھٹی دینی چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کے کسی فیملی ممبر یا ہمسایے کو کرونا  کا مرض لاحق ہو؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے یہ کہہ کر پورے صوبے کو ہزارہ قوم سے بدظن کیا اور ان سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ایک یسے غلط فیصلے کا خمیازہ ایک پوری قوم بھگتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری  ملازمین کو  جو ٹریننگ دی جاتی ہے اس میں  شعوری یا غیر شعوری کا تذکرہ نہیں ہوتا جس سے مراد وہ متعصب رویہ ہوتا ہے۔

کچھ لوگ تو جان بوجھ کر کسی قوم اور گروہ کی طرف اپناتے ہیں جب کہ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنے قوم، قبیلے اور ہم خیال طبقے کے علاوہ دوسروں کے بارے میں کم روابط کی وجہ سے محدود علم ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ دوسروں کے بارے میں دل ہی دل میں ایک ایسی رائے قائم کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔( مثلاً ہم نے کئی بار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ فلاں قوم بڑی ذہین ہے یا فلاں قوم بیوقوف ہے۔)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف سیکرٹری بلوچستان، انسپکٹرجنرل اور واسا کےایم ڈی ہزارہ قوم کے بارے میں اپنے سرکاری روابطہ میں جن generalizations کا سہارا لے رہے ہیں اگر وہ کسی مغربی مُلک میں ہوتے تو کب کے اپنے نوکری سے ہاتھ گنوا بیٹھتے لیکن لگتا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسے رویے کی حوصلہ شکنی نہیں ہو رہی جتنی ہونا چاہیے۔ اگر ان ہی کے دفتر میں کوئی ملازم یہ کہتے کہ سر میں خود تو ہزارہ یا شیعہ تو نہیں ہوں لیکن میرے خیال میں ہمیں اس حکم نامہ میں کسی خاص قوم یا مسلک کا نام نہیں ڈالنا چاہیے جس سے ان کی دل آزاری ہو۔

ہماری ایسی چھوٹی چھوٹی یاد دہانی سے ہو سکتا ہے کہ وہ آفیسر حکم نامہ میں استعمال ہونے والی اپنی زبان پر نظر ثانی کرے۔ ایسا کرنا ہر وقت آسا ن نہیں ہوتا لیکن ان ایسے interventions کا جو اثر پڑتا ہے وہ لوگوں کے دل و دماغ میں بڑے عرصہ تک رہتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی سوچ اور اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اب یہ بلوچستان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی سرکاری خط و کتابت او رروابط میں کسی قوم، فرقہ اور قبیلے کا اس طرح سے نام نہ لے کہ باقی لوگ ان کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہوں۔ اسی طرح ایف آئی کو بھی چاہیے کہ ان تمام آن لائن پلیٹ فارمز کے خلاف کارروائی کرے جو کرونا وائرس کی وجہ سے قوم میں پائی جانے والے اضطراب سے فائدہ اٹھا کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔

یہ ایک مشکل وقت ہے اور مشکل کےاس وقت (سوشل ڈسٹنسنگ کے باعث) شاید ڈاکٹرز ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے کی اجازت نہ دیں لیکن ایک دوسرے کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔ اس بحران کا مقابلہ نفرتوں سے نہیں بلکہ محبت اور باہمی احترام و اشتراک سے کیا جاسکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر