’دو گھنٹے تک ایمبولینس میں ڈاکٹر فرقان نے ہسپتالوں کے چکر کاٹے‘

باقی تو رہنے دیں وہ ہسپتال جہاں 64 سالہ ڈاکٹر فرقان نے باقی ہسپتالوں سے مایوس ہو کر اپنے علاج کے لیے خود کو داخل کروانے کی آخری کوشش کی لیکن 15 سال کی نوکری کے باوجود بھی نہ انہیں فوری طبی امداد دی گئی اور نہ ہی داخلہ۔

ڈاکٹر فرقان کی ساتھی ڈاکٹر فروا انہیں انتہائی خوش مزاج شخص اور رحم دل ڈاکٹر کے طور پر یاد کرتی ہیں (ڈاکٹر فرقان/سوشل میڈیا)

اپنے مریضوں کو آخر وقت تک ہمت نہ ہارنے کا سبق دینے والے ڈاکٹر، جنہوں نے آج تک خود کسی مریض کا علاج کرنے سے انکار نہیں کیا، اپنی آخری سانس تک ایک جاں باز سپاہی کی طرح موت سے لڑتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔

یہ ڈاکٹر فرقان تھے جو  پچھلے پندرہ سال سے کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ٹرائمیکس نامی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

یہ وہی ہسپتال ہے جہاں 64  سالہ ڈاکٹر فرقان نے باقی ہسپتالوں سے مایوس ہو کر اپنے علاج کے لیے خود کو داخل کروانے کی آخری کوشش کی تھی مگر 15 سال کی نوکری کے باوجود بھی نہ انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا اور نہ ہی انہیں فوری طبی امداد دی گئی جس کے باعث اتوار کو وہ اپنے گھر میں ہی انتقال کر گئے۔  

’ان کی حالت اس قدر خراب تھی کہ اگر ہم انہیں ہسپتال میں داخل کر بھی لیتے تو ہم انہیں صرف دیکھتے رہتے اور وہ ہمارے سامنے دم توڑ دیتے۔ یہاں وہ طبی سہولیات موجود ہی نہیں تھیں جن سے ہم ان کی جان بچا پاتے۔ انہیں اس وجہ سے بھی ہسپتال میں داخل نہیں کیا تھا کیوں کہ ٹرائمیکس ہسپتال کی پالیسی کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس کے مریضوں کو داخل کرنے کی اجازت نہیں۔‘

یہ کہنا تھا ٹرائمیکس ہسپتال میں ڈاکٹر فرقان کی ساتھی ڈاکٹر فروا کا جو ان کی قریبی دوست بھی تھیں۔

ڈاکٹر فروا کہتی ہیں: ’اگر میں نے ڈاکٹر فرقان کو دم توڑتے ہوئے دیکھا ہوتا تو میں خود دم توڑ دیتی۔ میں پچھلے تین سال سے ان کے ساتھ کام کر رہی تھی اور میری ان سے بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی۔‘

’ہم بہت ساری باتیں آپس میں شیئر کرتے تھے بلکہ مریضوں کے کیسز کے حوالے سے بھی ہماری بہت اچھی بحث ہوتی تھی۔ اگر میں کسی بھی چیز کے حوالے سے پریشان ہوتی تھی تو وہ مجھے بہت ہمت دلاتے تھے اور کہتے تھے کہ فروا اتنی پریشان نہیں ہوا کریں، آپ بہت بہادر خاتون ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فرقان کی ساتھی ڈاکٹر فروا انہیں انتہائی خوش مزاج شخص اور رحم دل ڈاکٹر کے طور پر یاد کرتی ہیں جس نے آج تک کسی مریض کا کیس لینے سے منع نہیں کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں: ’میں نے خود دیکھا ہے کہ ڈاکٹر فرقان نے آج تک کسی مریض کا علاج کرنے سے انکار نہیں کیا، انتہائی نازک حالت میں بھی اگر کوئی مریض ان کے پاس آتا تھا تو وہ علاج کرنے کے ساتھ ساتھ ہنسی مزاق میں اس مریض کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے ارے بھئی کچھ بھی نہیں ہوا ہے دیکھنا تم فوراً ٹھیک ہو جاؤ گے۔‘

ڈاکٹر فرقان کون تھے؟

صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فرقان نے اپنی میٹرک کی تعلیم 1972 میں حاصل کی اور 1976 میں انٹر بورڈ سندھ سے اپنا پری میڈیکل مکمل کیا۔

ڈاکٹر فرقان نے اس کے بعد سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے 1984 میں اپنی ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں اپنی ہاؤس جاب جناح ہسپتال سے مکمل کی۔

ڈاکٹر فرقان امراضِ قلب کے ماہر تھے۔ انہوں نے امراض قلب میں ڈپلوما کراچی میٹروپالیٹن کارپوریشن کے ماتحت ہسپتال کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈزیز ( کے آئی ڈی ایچ) سے 2016 میں حاصل کا تھا۔

اس دوران انہوں نے اسی ہسپتال سے اپنی ریزیڈینسی بھی مکمل کی۔ وہ یہاں گریڈ 17 پر ریزیڈینٹ میڈکل افسر کے طور پر چھ فروری 2010 کو تعینات ہوئے اور پانچ اکتوبر 2016  کو انہوں نے یہاں سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

امراض قلب کے ہسپتال کے آئی ڈٰی ایچ سے تو انہوں نے ریٹائرمنٹ  لے لی تاہم اس دوران انہوں نے ٹرائیمکس ہسپتال میں بطور ڈاکٹر اپنی ملازمت جاری رکھی۔ وہ 15 سال تک اس ہسپتال کا حصہ رہے اور وفات پانے سے ایک ہفتہ قبل بھی وہ اسی ہسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کا علاج کر رہے تھے۔

ڈاکٹر فرقان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

ڈاکڑ فرقان کی اہلیہ صائمہ فرقان نے متعدد ٹی وی چینیلز پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے شوہر کی طبعیت ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل خراب ہوئی۔ شروع میں ڈاکٹر فرقان نے خود کو گھر میں ہی آئیسولیٹ کر کے سماجی دوری اختیار کی۔

علامات ظاہر ہونے پر انہوں نے کراچی کے سپارکو روڈ پر واقع ڈاؤ ہسپتال سے اپنا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا۔ ایک دن بعد ان کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا لیکن اس کے باوجود بھی وہ گھر میں ہی آئیسولیشن میں رہے کیوں کہ ان کی طبعیت اتنی نازک نہیں تھی۔

اس دوران ہالینڈ میں موجود ان کی بہن نے کراچی کے انڈس ہسپتال میں ڈاکٹر ندا سے رابطہ کیا جو ڈاکٹر فرقان کی بھتیجی ہیں۔

ڈاکٹر ندا سے انہوں نے درخواست کی کہ ڈاکٹر فرقان کا علاج انڈس ہسپتال میں کروایا جائے جس پر انہوں نے ایک بیڈ خالی ہونے کی اطلاع دی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر ندا کا ایک آڈیو کلپ بھی منظر عام پر آیا تھا جس میں وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ ’میں نے اپنے چچا ڈاکٹر فرقان کو انڈس ہسپتال میں علاج کروانے کی گزارش کی تھی لیکن انہوں نے خود ہی یہاں آنا مناسب نہیں سمجھا۔‘

البتہ ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جس دن ان کے شوہر کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہوئی اس دن ڈاکٹر ندا نے انہیں بتایا کہ انڈس ہسپتال میں کوئی بیڈ خالی نہیں تھا۔

اس بات کی تصدیق ہم نے انڈس ہسپتال کے میڈیا مینیجر فواد بن راشد سے بھی کی جن کا کہنا تھا کہ انڈس ہسپتال کے کرونا وارڈ میں اس وقت صرف 26 بیڈز اور 15 وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے اس وقت تمام کرونا کے مریضوں کے استعمال میں ہیں۔ یہ اس ہی صورت میں خالی ہوتے ہیں جب کسی مریض کی وفات ہوتی ہے یا کسی دوسرے ہسپتال میں ان کا تبادلہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ کے مطابق جس دن ان کے شوہر کی وفات ہوئی اس ہی دن الصبح ان کے شوہر کے جاننے والے ڈاکٹر عامر اور ان کے ساتھی ٹیکنیشن ذیشان نے گھر پر آکر ڈاکٹر فرقان کا چیک اپ کیا جس کے بعد طبعیت ناساز ہونے کے باعث ڈاکٹر نے انہیں فوری طور پر ہسپتال جانے کی ہدایت کی۔  

اس کے بعد انہوں نے آغا خان ہسپتال فون کیا تو وہاں بھی یہ سن کر ان کی کال کاٹ دی گئی کہ ان کے شوہر کا کرونا ٹیسٹ مثبت ہے۔ نتیجاتاً ڈاکٹر فرقان امن ایمبیولینس کے ذریعے کراچی کے عزیزآباد کے علاقے میں واقع ایس آئی یو ٹی ہسپتال گئے۔

ان کی اہلیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس وقت ڈاکٹر فرقان کو امن ایمبولینس میں لیٹایا جارہا تھا، اس وقت ایمبولینس کے عملے میں سے کسی بھی شخص نے نہ ان کی مدد کی اور نہ انہیں پکڑ کر لیٹایا، بلکہ ان کی اہلیہ اور چار بیٹیوں نے مل کر ڈاکٹر فرقان کو ایمبولینس میں بیٹھایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ایس آئی یو ٹی ہسپتال والوں نے بھی جگہ نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر فرقان کو داخل نہیں کیا جس کے بعد انہوں نے سول ہسپتال میں بھی داخلے کی کوشش کی مگر وہاں بھی انہیں ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔

’دو گھنٹے ایمبولینس میں سانس کی تکلیف میں مبتلا کرونا کے مریض ڈاکٹر فرقان نے ہسپتالوں کے چکر کاٹے۔‘

ایک آخری کوشش کے لیے وہ اپنے شوہر کو اس ہسپتال لے کر گئیں جہاں وہ پچھلے 15 سال سے نوکری کر رہے تھے۔ مگر ٹرائیمکس ہسپتال نے بھی انہیں داخل کرنے سے منع کردیا کیوں کہ اس ہسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کا اعلاج نہیں ہوتا مگر ایمرجنسی میں بھی انہیں عارضی طور پر داخل نہیں کیا گیا۔

آخر کار ہر دروازے پر دستک دے کر، ہر ہسپتال سے رحم کی التجا کرکے، ایک ایک سانس کے لیے لڑتے ہوئے اس ڈاکٹر جس نے آج تک خود کسی مریض کا علاج کرنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنے گھر لوٹ کر اپنی اہلیہ صائمہ فاروق کی کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔

سندھ میں اس وقت کرونا وائرس کے سات ہزار سے زائد مریض ہیں۔ وزیر صحت عذرا پیچوہو کے مطابق اگلے دو ہفتوں میں یہ کیسز دوگنا ہونے کے امکانات ہیں۔

پورے سندھ میں اس وقت 2014 وینٹی لیٹرز کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

سندھ میں اس وقت 11 ہسپتال ایسے ہیں جہاں کرونا کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے جن میں سے نو ہسپتال کراچی میں ہیں جن میں آغان خان، انڈس، ڈاؤ اوجھا، پی این ایس شفا، ضیاالدین، چغتائی لیب، ایس آئی یو ٹی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ ہسپتال شامل ہیں۔

اس کے علاوہ لیاقت میڈیکل ہسپتال حیدرآباد اور میڈییکل انسٹی ٹیوٹ گمبٹ میں بھی کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان