ڈاکٹر محمد جاوید: 'کرونا وائرس نے میرے معالج کو بھی نہیں بخشا'

خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے پہلے ڈاکٹر کی موت۔ ڈاکٹر جاوید حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں ای این ٹی یونٹ میں پروفیسر تھے۔

ڈاکٹر جاوید نے سوگواران میں بیوی،13 سالہ بیٹی اور 10 سالہ بیٹا چھوڑا ہے(تصویرحیات آباد میڈیکل کمپلیکس)

'مجھے صبح آٹھ بجے اس وقت دھچکہ لگا جب میں نے سوشل میڈیا پر خبر پڑی کہ ڈاکٹر محمد جاوید انتقال کر گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ کرونا (کورونا) وائرس کی بیماری، جس کی ایک بڑی علامت سانس پھولنا ہے، سانس کی بیماریوں کے ایک ماہر ڈاکٹر پر حملہ کرے گی۔ کرونا نے میرے معالج کو بھی نہیں بخشا۔'

یہ کہنا تھا پشاور کے غلام غوث کا، جو پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور کافی عرصے سے ڈاکٹر محمد جاوید سے سانس پھولنے اور ناک کی بیماری کا علاج کرا رہے تھے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، 'میں آج بھی ڈاکٹر جاوید کی تجویز کردہ ادویات لیتا ہوں۔ اپنی صحت یابی کے لیے ڈاکٹر جاوید سے پہلے کئی ڈاکٹروں کے پاس گیا تھا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا لیکن ڈاکٹر جاوید کی لکھی دوا نے کام کر دکھایا۔'

خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کام کرنے والے ای این ٹی سپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید کرونا وائرس کی وجہ سے ہفتے کو انتقال کر گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہسپتال کی ترجمان توحید بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر جاوید میں تقریباً دو ہفتے پہلے کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، وہ ایک ہفتہ وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد ہفتے کی صبح انتقال کرگئے۔

ضلع چارسدہ کے علاقے ابازئی سے تعلق رکھنے والے 53  سالہ ڈاکٹر محمد جاوید گذشتہ تقریباً 20 سال سے حیات آباد میڈٰکل کمپلیکس ہسپتال سے وابستہ تھے۔

ڈاکٹر جاوید کے ساتھ  کام کرنے والے اور ای این ٹی یونٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر حنیف اللہ نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ چار سال میں جب بھی ڈاکٹر جاوید نے مجھے آواز دی تو پیار سے ‘بچو دیخوا راشہ ‘( بچے ادھر آؤ) کہہ کر آواز دی۔

'مزاج میں تھوڑا سخت تھے لیکن اپنے ماتحتوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے تھے۔ متوسط طبقے سے آنے والے بیمار افراد کا خصوصی خیال رکھا کرتے اور جب بھی کسی غریب شخص کا کیس آتھا تو ان کو پہلے اپانمنٹ دیتے۔'

ڈاکٹر حنیف نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر جاوید بالکل فٹ تھے اور ان کو کسی قسم کا سنگین طبی مسئلہ درپیش نہیں تھا، البتہ ان کو شوگر کی بیماری تھی لیکن وہ اسے کنٹرول میں رکھتے اور اپنے صحت کا خیال رکھتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر جاوید پشاور کے خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور پاکستان ہی سے سپیشلائزیشن کر چکے تھے جبکہ ایم آر سی پی کی ڈگری لندن سے حاصل کی تھی۔

'کرونا کے علامات میں چونکہ سانس کا مسئلہ بہت اہم ہے اس لیے ای این ٹی یونٹ کی طرف سے ڈاکٹر جاوید ہسپتال کے کرونا کمبیٹ(کرونا سے لڑنے والی ٹیم) کا حصہ تھے۔'

انھوں نے بتایا، 'اس ٹیم نے دن رات کام کیا اور پورے یونٹ میں شروع دن سے ہی احتیاطی تدابیر اپنائی گئیں۔ تاہم 15دن پہلے ان میں علامات آنا شروع ہوگئیں جس کے بعد ان کے کرونا ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے گئے۔'

ڈاکٹر حنیف کے مطابق ٹیسٹ رزلٹ آنے سے پہلے ہی ڈاکٹر جاوید کی حالت خراب ہوگئی تھی اور ان کو انتہائی نگہداشت وارڈ منتقل کر دیا گیا تھا۔

کرونا وائرس نے ڈاکٹر جاوید کے کون سے اعضا پر حملہ کیا؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر حنیف نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ڈاکٹر جاوید کے 80 فیصد پھیپڑے خراب ہوگئے تھے جبکہ بعد میں وائرس بدن کے اندر خون میں داخل ہو گیا تھا اور ان کے گردوں اور پھیپڑوں کو مکمل فیل کر دیا تھا۔

ڈاکٹر جاوید تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور سوگواران میں بیوی،13 سالہ بیٹی اور 10 سالہ بیٹا چھوڑا ہے۔

ڈاکٹر حنیف نے بتایا، 'عوام کو اس بات سے اندازہ لگانا چاہیے کہ ڈاکٹر جاوید بالکل ٹھیک ٹھاک اور فٹ تھے، انھیں کوئی سنگین بیماری بھی نہیں تھی لیکن کرونا کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔'

ہسپتال کی جاری کردہ پریس ریلیز میں ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد فیصل نے کہا کہ 'ڈاکٹر جاوید نے کرونا وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر ڈیوٹی سرانجام دی اور ہمیں ان پر فخر ہے۔'

پاکستان میں اس وقت کرونا وائرس کے 11940 مصدقہ کیسز ہیں، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 253 ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں 1708 مصدقہ اور 1147 فعال کیس ہیں۔ صوبے میں اب تک 89 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ 472 مریض تندرست ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت