کرونا اور ٹائیفائیڈ کی ملی جلتی علامات سے مریض تذبذب کا شکار

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس اور ٹائیفائیڈ کی ملتی جلتی علامات کے باعث ڈاکٹر کئی مریضوں کے ٹائیفائیڈ ٹیسٹ کروا رہے ہیں جو مثبت بھی آ رہے ہیں مگر انہیں ٹائیفائیڈ کی بجائے کرونا کے ٹیسٹ کروانے چاہییں۔

ایک خاتون اسلام آباد میں  ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ سینٹر  میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروا کر نکل رہی ہیں جبکہ طبی عملے کے ایک رکن نے سواب پکڑ رکھا ہے (تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس اور ٹائیفائیڈ کی ملتی جلتی علامات کے باعث ڈاکٹر کئی مریضوں کے ٹائیفائیڈ ٹیسٹ کروا رہے ہیں جو مثبت بھی آ رہے ہیں مگر انہیں ٹائیفائیڈ کی بجائے کرونا کے ٹیسٹ کروانے چاہییں تاکہ مریضوں میں دونوں بیماریوں سے متعلق تذبذب ختم ہو۔

ڈاکٹر شمس وزیر خیبر پختونخوا کے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ سے وابستہ ہیں اور آج کل کرونا کے حوالے سے عوام کو ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی مشورے دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر شمس صوبائی حکومت کی طرف سے بنائی گئی آن لائن ٹیم کا حصہ بھی ہیں جو ہیلپ لائن 1700 پر عوام کو طبی مشورے فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج کل ملک بھر سے بہت سے ایسے مریض ان سے رابطہ کرتے ہیں جن کو بخار، جسم میں درد اور پیٹ کی خرابی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے لیکن وہ ٹائیفائیڈ کا عام ٹیسٹ جس کو ’وِڈال یا ٹائفی ڈاٹ‘ ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے، کروا کر کہتے ہیں کہ ان کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر شمس نے بتایا: ’مسئلہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں ڈاکٹر انہی علامات کو لے کر مریض کو ٹائیفائیڈ ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں جس میں ٹائیفائیڈ تشخیص ہوتا ہے، تاہم بظاہر وہ ’فالز پازٹیو‘ یعنی جعلی مثبت ہوتا ہے کیونکہ آج کل کرونا کی وبا میں جب بھی بخار ہوتا ہے تو پہلے کرونا کا ٹیسٹ تجویز کرنا چاہیے۔‘

’ٹائیفائیڈ کا عام ٹیسٹ اب تجویز نہیں کیا جاتا‘

ڈاکٹر شمس نے بتایا کہ ٹائیفائیڈ کے لیے کئی دہائیوں سے ہونے والا وڈال یا ٹائفی ڈاٹ (typhidot/widal) ٹیسٹ اب ترقی یافتہ ممالک میں نہیں کیا جاتا کیونکہ صحت کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس سے ٹائیفائیڈ کی درست تشخیص ممکن نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ٹائیفائیڈ کے لیے اب دوسرے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں خون، ہڈیوں کے گودے یا فضلے کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جن سے ٹائیفائیڈ کی درست تشخیص ہو سکتی ہے۔

امریکہ کے سرکاری صحت کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز (این آئی ایچ) کی جانب سے 2011 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں بھی یہی چیز درج ہے۔

اس مقالے میں اس بات پر تحقیق کی گئی کہ وڈال یا ٹائفی ڈاٹ ٹیسٹ ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے کتنا موثر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ٹائیفائیڈ کے اس ٹیسٹ میں مثبت نتائج کم اعتبار والے ہوتے ہیں اور یہ بالکل واضح نہیں کہا جا سکتا کہ اگر ٹیسٹ مثبت ہے تو مریض کو ٹائیفائیڈ کی بیماری ہے، تاہم اس تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ اس ٹیسٹ کے منفی نتیجے پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر شمس کے مطابق وڈال یا ٹائفی ڈاٹ ٹیسٹ میں ٹائیفائیڈ جراثیم کے خلاف جسم میں بننے والے اینٹی باڈیز (جسم میں بننے والے وہ خلیے جو کسی بھی وائرس یا جراثیم کے خلاف لڑتے ہیں) کی موجودگی کو دیکھا جاتا ہے۔ عام طور پر جسم میں اینٹی باڈیز کی موجودگی کا مطلب ہوتا ہے کہ بیماری موجود ہے یا ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہی عام ٹائیفائیڈ ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے دیہی علاقوں سمیت شہروں میں بھی کچھ ڈاکٹر مریضوں کو ٹائیفائیڈ کی دوا تجویز کرتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو اگر کرونا ہے تو اس کی حالت مزید بھی بگٹر سکتی ہے کیونکہ زیادہ اینٹی بائیوٹکس کھانے سے ان پر پھر دوا اثر نہیں کرتی۔‘

(یاد رہے کرونا ایک وائرس ہے جبکہ ٹائیفائیڈ ایک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔  طبی ماہرین کے مطابق کسی کرونا مریض کی قوت معدافت کو بیکٹیریا سے لڑنے والی اینٹی بائیوٹکس سے مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔)

پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس سے بحیثیت پروفیسر منسلک، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اپتھمالوجی کے ڈین اور کرونا ریسپانس ٹیم کا حصہ ڈاکٹر محمد نور وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ کرونا اب پوری دنیا میں ایک وبا ہے اس لیے اگر کسی کو بخار، کھانسی، جسم میں درد، پیٹ کی خرابی جیسی علامات ہیں تو وہ کرونا کا مشتبہ مریض ہے اور اس کا ٹائیفائیڈ نہیں بلکہ کرونا کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر نور نے بتایا: ’میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو سختی سے کرونا کی وبا کے دنوں میں بھی ٹائیفائیڈ یا کسی بھی مرض کے لیے اینٹی باڈیز ٹیسٹ پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ عوام کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں عام ہونے والے اس ٹائیفائیڈ ٹیسٹ میں مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں صحت یابی کے بعد بھی جراثیم کی موجودگی پائی جاسکتی ہے اور جب تک وہ وڈال ٹیسٹ کروائیں گے تو وہ مثبت ہی آئے گا۔ ایسے میں ٹیسٹ کی بنیاد پر ٹائیفائیڈ کی تشخیص کردی جاتی ہے جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ مریض کو اصل میں یہ انفیکشن ہو ہی نہ۔

کیا کرونا اور ٹائیفائیڈ کا کوئی تعلق ہے؟

ڈاکٹر شمس کے مطابق لوگ کرونا اور ٹائیفائیڈ کی ایک جیسی علامات کی وجہ سے بھی تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض جو ان سے رابطہ کرتے ہیں ان کو پیٹ کی خرابی، معمولی بخار اور جسم میں درد کی علامات ہوتی ہیں۔ ایسے افراد کو کرونا وائرس کا ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے جو مثبت آجاتا ہے جبکہ اس سے پہلے ان کا ٹائیفائیڈ والا عام ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی بات لاہور کے شوکت خانم ہسپتال کے وبائی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر عامر خان نے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹائیفائیڈ کے لیے اب بلڈ کلچر ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور یہاں ہسپتال میں ہم نے کرونا کے مریضوں کے ٹیسٹ کروا کر ایسا نوٹ نہیں کیا ہے کہ ان کے بلڈ کلچر ٹیسٹ میں ٹائیفائیڈ کے جراثیم پائے گئے ہوں۔‘

ڈاکٹر شمس نے بتایا: ’کرونا اور ٹائیفائیڈ کے بخار والی علامات میں فرق ضرور ہے۔ کرونا بخار تیز نہیں ہوتا جبکہ ٹائیفائیڈ میں 103 اور 104 درجے کا بخار ہوسکتا ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار کئی ہفتوں تک ہو سکتا ہے جبکہ جہاں تک ہم نے نوٹ کیا ہے کرونا بخار تین سے چار دن تک ہوتا ہے۔‘

ٹائیفائیڈ مرض کیا ہے؟

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ٹائیفائیڈ ایک موذی مرض ہے جوآلودہ پانی اور خوراک میں موجود سالمونیلا ٹائفی نامی جراثیم سے پھیلتا ہے جس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان علاقوں میں اس کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہوتا ہے، جہاں آبادی زیادہ ہو اور پینے کا صاف پانی اور اچھی خوراک میسر نہ ہو۔

اعداد و شمار کے مطابق ٹائیفائیڈ کے سب سے زیادہ کیسز ایشیا اور افریقہ میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں 2016 سے ٹائیفائیڈ کی ایک ایسی قسم رپورٹ ہو رہی ہے جن کے مریضوں پر دوا اثر نہیں کرتی۔ اس کو extensively drug resistant typhoid کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے عام طور پر ٹائیفائیڈ کے خلاف استعمال ہونے والی دوائیں اس قسم کے جراثیم پر اثر نہیں کرتیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں 2016 سے لے کر فروری 2020 تک 10 ہزار سے زائد ایسے ٹائیفائیڈ کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جس میں اموات کی شرح ایک فیصد ہے جبکہ تقریباً 63 فیصد کیس 15 سال سے کم عمر کے بچوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

ڈبلیو ایچ کے مطابق پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے نومبر 2019 میں ٹائیفائیڈ کے خلاف بچوں کی ویکسینیشن کو اپنے صحت کے پروگرام کا حصہ بنایا ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔

بدلتے جراثیم

جس طرح ڈاکٹر شمس نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے انسانی جسم پر دوا کا اثر ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ جسم اینٹی بایئوٹک کا عادی ہو جاتا ہے، اسی حوالے سے برطانیہ میں ٹائیفائیڈ بیماری پر کام کرے والی فلیمنگ فنڈ نامی ایک تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق وائرل انفیکشن اور بیکٹیریل انفیکشن کے درمیان لنک ضرور موجود ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق 1918 کے ہسپانوی فلو کی وبا میں یہ دیکھا گیا تھا کہ اس وائرس سے نمونیا جیسی دیگر بیماریاں مریضوں کو لگیں جس سے زیادہ اموات واقع ہوئی تھیں جبکہ 2010 کی سوائن فلو وبا کے دوران بھی 29 فیصد سے 55 فیصد مریض دیگر بیکٹیریل انفیکشن لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ 

رپورٹ کے مطابق: ’جس طرح ابھی کرونا کے علاج کے لیے پاکستان میں اینٹی بائیوٹک Azythromycin کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسی کے زیادہ استعمال سے یہ خوف ضرور موجود ہے کہ اس سے ٹائیفائیڈ کے مریض کو دی جانے والی دوا اثر کرنا چھوڑ دے اور ٹائیفائیڈ کا علاج متاثر ہوسکے۔‘

وائرل بیماریوں کی وجہ سے لگنے والے دیگر بیکٹیریل انفیکشن کے حوالے سے ڈاکٹر نور وزیر نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وائرل انفیکشن سے دیگر بیکٹیریل انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے جس طرح خسرے کے بیماری میں نمونیا کا خطرہ ہوتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر نور وزیر کے مطابق اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی شخص کو پہلے ٹائیفائیڈ ہو اور اسی وجہ سے ان کو کرونا وائرس کی بیماری لاحق ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شخص میں اگر کرونا کے علامات موجود ہیں تو ان کو پہلے کرونا کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت