'سپریم کورٹ بھی کرونا وائرس کی حدت محسوس کر رہی ہے'

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولے رکھنے کا حکم واپس لے لیا۔ بینچ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے، حکومت کے پاس وقت کم ہے۔

(اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے کرونا وبا میں اضافے کے پیش نظر ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے آج کرونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی کیونکہ بینچ کے پانچویں جج جسٹس مظہر عالم میاں خیل کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے کے باعث عدالت نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ حکومت نے تاحال کرونا وائرس سے تحفظ کے لیے قانون سازی نہیں کی، قومی سطح پرکوئی قانون سازی ہونی چاہیے تھی کیونکہ قومی سطح پر ہونے والی قانون سازی کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب ملک کے تمام ادارے کام کرسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کرونا وائرس سے تحفظ کے اقدامات کر رہی ہے، وفاقی حکومت اب ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ صوبوں کی جانب سے قانون سازی کی گئی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معلوم نہیں کرونا مریضوں کی تعداد کہاں جا کر رکے گی، کرونا وائرس کسی صوبے میں تفریق نہیں کرتا اور لوگوں کو مار رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اس معاملے پر لیڈ رول ادا کرنا چاہیے۔ 'وقت سب سے بڑا اثاثہ ہے، وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ آپ کے پاس اب وقت نہیں رہا۔ ایک لاکھ سے زائد کرونا کیس سامنے آ گئے ہیں۔'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت لوگوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے، لوگوں کی زندگی کا تحفظ سب سے بڑا بنیادی حق ہے، موجودہ حالات میں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ 'پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کا تحفظ نہیں ہو گا، عوام کا تحفظ قانون کے بننے اور اس پر عمل سے ہو گا، قانون کے حوالے سے تاحال کچھ نہیں ہوا، چین نے وبا سے نمٹنے کے لیے فوری قانون بنائے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت کو قانون سازی کی تجویز دوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'ہم تو پہلے دن سے فنکشنل ہیں، عدالتیں بند نہیں کر سکتے، ہم بھی کرونا وائرس کی حدت محسوس کر رہے ہیں۔' چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سینٹری ورکرز گندے گٹر صاف کرتے ہیں ان کے لیے حفاظتی اقدامات کیا ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان ہر حال میں دستیاب ہونا چاہیے، خدانخواستہ حفاظتی سامان نہ ہونے سے کوئی نقصان ہوا تو تلافی نہیں ہو گی، ورکرز کی ہلاکت پر وزیر اعلیٰ جا کر معاوضے کا اعلان کر دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عید کی وجہ سے ہفتہ اتوار کو مارکیٹس کھولی گئی تھیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے جواباً کہا کہ لوگوں میں تاحال آگاہی نہیں آئی، عید کے موقعے پر لوگوں نے ایس او پیز کو نظرانداز کر دیا، ویکسین کی دریافت سے قبل واحد راستہ احتیاطی تدابیر ہیں، کرونا وائرس بہت تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ شہریوں کو بھی ذمہ داری دکھانا ہوگی۔

این ڈی ایم اے کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ صلاحیت 30 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 30 ہزار ٹیسٹ تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔

این ڈی ایم اے حکام نے جواب دیا کہ ٹیسٹس کی صلاحیت کو ساتھ ساتھ بڑھایا جائے گا، کرونا ٹیسٹنگ کی100 لیب قائم کی جا چکی ہیں۔

ملک کے مختلف اضلاع میں ٹڈی دل کے پھیلاؤ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چار ماہ میں دو مرتبہ ٹڈی دل بچے دے چکی ہے۔ کیا پاکستان میں ٹڈی دل نہیں ہے؟

اس پر این ڈی ایم اے حکام نے جواب دیا کہ ٹڈی دل کا مسئلہ تاحال موجود ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے پیچھے بھاگ رہا ہے، این ڈی ایم اے کو ٹڈی دل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، ٹڈی دل پر سپرے کے لیے چار جہاز کافی نہیں۔

عدالت نے کرونا از خود کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے حکومت سے ٹڈی دل حملوں سے نقصانات کی تفصیلات طلب کرلیں، عدالت کو بتایا جائے کہ ٹڈی دل کے حملوں سے فوڈ سکیورٹی کو کتنا نقصان ہوا اور نقصان کے نتیجے میں باہر سے خوراک منگوانے پر کتنے اخراجات آئیں گے۔

عدالت نے ترکی سے ٹڈی دل سپرے کے لیے  جہاز لیز پر لینے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ حکومت کرونا وائرس کے خاتمے کے لیے قانون سازی کو یقینی بنائے۔ 'تمام حکومتیں سینیٹری ورکرز کو حفاظتی سامان کی فراہمی یقینی بنائیں، سینیٹری ورکرز کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان