کرونا کی وبا اور بجٹ 21-2020: حکومت کو پیچیدہ صورت حال کا سامنا

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت آج مالی سال 21-2020 کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کرنے جا رہی ہے جب کرونا وائرس کی وبا نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

وزارت خزانہ سینٹ میں جمع کرائے گئے ایک سوال کے جواب میں ملک میں تیس لاکھ افراد کے بےروزگار ہونے کے خدشہ کا اظہار کر چکی ہے۔(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت آج مالی سال 21-2020 کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کرنے جا رہی ہے جب کرونا (کورونا) وائرس کی وبا نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب تک 2500 کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا جس میں کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر صرف 25 فیصد اراکین شرکت کریں گے۔

ماہرین معاشیات کے خیال میں کرونا وبا کی وجہ سے آئندہ مالی سال کے دوران تحریک انصاف کی حکومت کو ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا رہے گا اور 21-2020 کے بجٹ میں صورت حال کی پیچیدگی کا اندازہ لگانا اور وسائل کی مناسب تقسیم سے متعلق فیصلے لینا مشکل عوامل ہیں۔

پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس اس سال فروری میں سامنے آیا اور تقریباً چار ماہ کے عرصے میں ملک کے طول و عرض میں مہلک جرثومے کی ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ لوگوں میں تصدیق ہو چکی ہے۔ 

کرونا وبا پھیلنے سے پہلے بھی پاکستان کی معاشی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی، تاہم وبا کی روک تھام کے لیے مختلف اوقات میں ملک کے مختلف حصوں میں لگائے گئے لاک ڈاؤنز نے معاشی اور کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا جس کے باعث معاشی اشاریوں کی مزید نیچے کی جانب پروازیں دیکھنے میں آئیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ نے جمعرات کو اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ کرونا وبا کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تین ہزار ارب روپے کے خسارے کا اندیشہ ہے۔

بجٹ کے تین ڈیز (Ds)

دفاع (ڈیفنس)، قرضوں کی ادائیگی (ڈیٹ سروسنگ) اور ترقی (ڈیولپمنٹ) ہمیشہ سے پاکستان کے بجٹ کے اہم ستون رہے ہیں اور ان تین شعبوں کے لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ وسائل مختص کرنے کی حکومتی روایت بھی پرانی ہے۔ 

ملک کے مخصوص دفاعی حالات کے باوجود آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ مشیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے جمعرات کو اخباری کانفرنس میں آرمی چیف کا دفاعی بجٹ منجمد کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔

مارچ میں جاری ہونے والے بجٹ سٹریٹیجی پیپر کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران دفاعی بجٹ میں 12 فیصد اضافے کا امکان تھا جبکہ عسکری قیادت حکومت سے افواج پاکستان کی تنخواہوں میں کم از کم 20 فیصد اضافے کی درخواست بھی کر چکی ہے۔ 

دوسری طرف ملکی معیشت سے متعلق سب سے بڑے آئینی فورم قومی معاشی کونسل نے بدھ کو آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1.32 کھرب روپے کی منظوری دی، جو رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ (1.5 کھرب روپے) سے 12 فیصد کم ہے۔

قومی معاشی کونسل نے مجموعی ترقیاتی بجٹ میں سے 650 ارب روپے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے رکھے ہیں جو رواں مالی سال سے 7.3 فیصد کم ہیں جبکہ صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگراموں (اے ڈی پیز) کے لیے بھی مختص رقم میں 16 فیصد کٹوتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جہاں تک بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں پاکستان کو بین الاقوامی اداروں، ڈونر ایجنسیز اور قرض دینے والے ملکوں سے کافی رعایتیں ملی ہیں اور یوں کم از کم  اس دسمبر تک اسلام آباد پر ڈیٹ سروسنگ کی مد میں ادائیگیوں کا دباؤ نہیں ہو گا۔

آئی ایم ایف، پیرس کلب، جی 20 ممالک کے علاوہ سعودی عرب اور چین نے بھی پاکستان کی قرضوں کی ادائیگیاں دسمبر 2020 تک موخر کر دی ہیں جبکہ متحدہ ارب امارات کی حکومت سے اس سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔

کرونا کی وبا

قومی معاشی کونسل کے اجلاس میں ترقیاتی بجٹ میں سے 70 ارب روپے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے قلیل مدتی پراجیکٹس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ دیکھنا ہو گا کہ 70 ارب روپے کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے کس حد تک کافی ہوں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ملک میں کیسز کی تعداد جولائی میں زیادہ ہو گی۔

معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کا کہنا تھا کہ گذشتہ تین مہیوں کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤنز کا اثر جون میں نظر آئے گا، اور اس کے بعد معاشی صورت حال زیادہ مشکل فیز میں داخل ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس حقیقت کو ضرور مدنظر رکھنا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کہتے ہیں: ’حکومت کے لیے آئندہ مالی سال کے پہلے تین مہینے (جولائی سے ستمبر) بہت اہم اور مشکل ہوں گے۔ اسی وقت میں اہم فیصلے لینا ہوں گے۔‘

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ معاشی اہداف کا تعین کرتے ہوئے کرونا وائرس کی وبا کو ہر صورت نظر میں رکھنا چاہیے۔

آئندہ مالی سال کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج کرونا وائرس اور اس کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہونا ہو گا۔

ایسے میں حکومت کو 21-2020 کے بجٹ میں معاشی اہداف کو زیادہ سے زیادہ لچک دار رکھنا ہو گا تو ہی کرونا وائرس کی وبا کے باعث تیزی سے تبدیل ہوئی صورت حال سے نمٹنا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے۔

نئے ٹیکس، روزگار اور تنخواہیں

پاکستان کی آمدن کے بڑے ذرائع میں ٹیکس، بیرون ملک پاکستانیوں سے حاصل ہونے والی ترسیلات اور برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن شامل ہیں۔

تحریک انصاف حکومت کو رواں مالی سال کے دوران ٹیکس جمع کرنے کے اہداف مکمل کرنے میں بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کروانا وائرس کی وبا کے بعد ان اہداف کی تکمیل مزید بری ہوتی چلی گئی۔ 

وبا کی ہی وجہ سے پاکستانی برآمدات بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے بھی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف عرب ملکوں میں ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح مغربی ملکوں میں رہنے والے پاکستانی بھی وہاں برے معاشی حالات کے باعث وطن پیسے بھیجنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

سوال یہ کہ حکومت آئندہ مالی سال کے دوران اپنی آمدنی کن ذرائع سے بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا جواب جمعے کو پیش ہونے والے بجٹ میں ہی مل سکتا ہے۔

تاہم وزیر اعظم کے مشیر برائے کامرس اور سرمایہ کاری رزاق داؤد نے بدھ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ذریعے حکومتی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا جبکہ صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال پر امپورٹ ڈیوٹیاں ختم کی جائیں گی۔

معاشی تجزیہ کاروں کے خیال میں حکومت نئے ٹیکس تو لگانا چاہے گی، لیکن کرونا وائرس کی وبا کے باعث ٹیکس دہندگان ادائیگیوں کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔

ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکس لگا بھی دیں تو ادا کون کرے گا۔ خراب کاروباری حالات کی وجہ سے لوگوں کی استطاعت ہی نہیں کہ ٹیکس ادا کر سکیں۔

ملک کی بزنس کمیونٹی گذشتہ تین ماہ سے سٹیٹ بینک کے ٹیکس کی شرح کو بالکل ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

سٹیٹ بینک نے بینکوں سے پیسے نکالنے پر ادا کیا جانے والا ودہولڈنگ ٹیکس بھی ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔

رزاق داؤد کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی کوشش کرے گی جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

وزارت خزانہ سینٹ میں جمع کرائے گئے ایک سوال کے جواب میں ملک میں تیس لاکھ افراد کے بےروزگار ہونے کے خدشہ کا اظہار کر چکی ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم پندرہ فیصد اضافے کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں حکومت پاکستان اور بین الاقوامی ادارے کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت