آپریشن ضرب عضب کے چھ سال بعد بھی قبائلی امن کے منتظر

حکومت کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کا مقصد دہشت گردی کی تمام بیماریوں کا خاتمہ کرنا ہے، تاہم چھ سال بعد بھی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ رک نہ سکی۔

نو جولائی2014  کی اس تصویر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے دروران میران شاہ کے ایک بازار میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے درمیان ایک فوجی ڈیوٹی پر (اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب کے چھ سال پورے ہوگئے مگر ابھی تک امن قائم ہوا اور نہ دہشت گرد ختم ہوئے جبکہ افغان سرحد کے قریب دتہ خیل اور شوال کے سینکڑوں متاثرین بھی واپس نہ جاسکے۔

آپریشن ضرب عضب 15 جون 2014 کو شروع ہوتے ہی میران شاہ فوجی چھاونی، سکاؤٹس قلعہ اور دوسرے مختلف ٹھکانوں سے توپوں کی گن گرج آوزاوں کے ساتھ گولے برسنا شروع ہوئے تو توپوں کی زوردار آوازیں سنتے ہی پورے علاقے میں افراتفری پھیل گئی۔ کوئی بازار سے گھر کی طرف بھاگ رہا تھا اور کوئی گھر سے باہر کھلے میدان کی طرف بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قیامت کے دن کا ایک منظر تھا۔

وہ خواتین جو گھروں میں پردہ دار تھیں کھلے عام مرکزی شاہراہ پر محفوظ مقامات کی جانب چل پڑیں۔ ان کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں چھوٹے بچوں کی تھی جن میں سے کوئی رو رہا تھا اور کوئی پانی یا کھانا مانگ رہا تھا۔

لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف قافلوں کی صورت میں روانہ ہوئے تھے۔ کسی کو گاڑی مل گئی تو کوئی ٹریکٹر پر سوار ہوئے مگر زیادہ تعداد میں متاثرین پیدال چلنے لگے تھے۔ تمام لوگ اپنے ساتھ صرف ضروری استعمال کی چیزوں کو اُٹھا کر لے جا رہے تھے، باقیوں نے گھروں میں کروڑوں کی مالیت کے ساز وسامان کو چھوڑ کر اپنے بال بچوں کو محفوظ مقامات تک پہنچنا ہی غنیمت سمھجا تھا۔

آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے فوج نے پورے علاقے کو تین دن میں خالی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اعلان میں بتایا گیا تھا کہ کہ شمالی وزیرستان کے تمام لوگ اپنے گھروں کو خالی کر دیں تاکہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں عام شہری کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر اکثر لوگوں نے فوج کے اعلان کو سنجیدہ نہیں لیا اور ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ جرگے کے ذریعے مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔ 

ایف ڈی ایم اے کے مطابق آپریشن ضرب عضب میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے تھے ارو یہ متاثرین صرف بنوں میں نہیں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔ ان متاثرین میں بیس ہزار خاندان جو افغان سرحد کے قریب آباد تھے افغانستان کے علاقے خوست چلے گئے تھے جن میں اب بھی پانچ ہزار خاندان افغانستان سے واپس نہیں آئے ہیں۔

سرکاری عداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ 10 ہزار خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تھے جن میں سے اب بھی 15 ہزار چھ سو خاندان متاثرین کیمپ بکا خیل میں موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر افغان سرحد کے قریب مداخیل اور دتہ خیل قبائل شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی انتظامیہ کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دوران 15 ہزار مکانات تباہ ہوئے جبکہ میران شاہ اور میرعلی کے بازاروں میں 20 ہزار سے زیادہ دوکانیں اور مارکٹیں بھی مکمل طور زمین بوس ہوگئیں۔ حکومت کی طرف سے تباہ شدہ مکانات اور دوکانوں کے مالکان کو مناسب معاوضہ دیا جارہا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے دو سال مکمل ہونے پر فوج نے کہا تھا کہ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو ختم کرکے پورے علاقے کو ان سے خالی کر دیا ہے اور فوج افغان سرحد پر پہنچ چکی ہے اور اب زیادہ تر توجہ سرحدی انتظامات پر ہے تاکہ شدت پسند دوبارہ واپس نہ آسکیں۔

مگر فوج کے اس اعلان کے باوجود بھی شدت پسند واپس آنے میں کامیاب ہوگئے اور علاقے میں فوجی قافلوں پر حملے اور ٹارگٹ کلینگ میں جوانوں کی ہلاکتیں شدت پسندوں کے موجودگی کا پیغام ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ 15 جون کا دن زندگی میں کھبی نہیں بھول پائیں گے۔ میرعلی سے لے کر بنوں تک کا راستہ پیدل طے کرنے والوں کا کہنا ہے کہ راستے میں بچوں کے لیے پانی کا انتظام نہیں تھا اور کئی بار پیاس کی وجہ سے بچے بے ہوش بھی ہو گئے تھے۔

مبصرین کے خیال میں 15 جون وزیرستانیوں کے لیے تاریخ میں وہ بدترین دن ہے جس نے آنے والے نئے نسل کو پانچ عشروں تک مشکلات میں پھنسا دیا اور وزیرستان جیسے جنت نظیر علاقے کو ویرانے میں تبدیل کردیا ہے۔

15 جون نے کاروبار گھر سکول کالج سب کچھ تباہ و برباد کر دیا۔ وزیرستان کے لوگ اب بھی آمن کے طلب گار ہیں لیکن کوئی بھی امن دینے کے لئے تیارنہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ستر سالوں میں کوئی ایسی تاریخ نہیں ملے گی جس میں انہوں نے پاکستان کی ہر مشکل میں ساتھ نہیں دیا ہوگا۔ 

قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنوں سے پہلے قبائلی عوام فوج کے ساتھ ہر محاذ پر شانہ بشانہ موجود ہوتے تھے۔ وہ اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خاتمے کے منتظر تھے لیکن دہشت گردوں نے صرف عارضی ٹھکانے تبدیل کیے اور اب دوبارہ آگئے ہیں جبکہ رہائشی دوبارہ نہیں آ پائے۔ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے دور دارز علاقوں میں جو مکانات مسماری سے بچ گئے تھے وہ بارش اور بارف باری کی وجہ سے زمین بوس ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ آپریشن ضرب عضب جب شروع ہوا تو حکومت کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد دہشت گردی کی تمام بیماریوں کا خاتمہ کرنا ہے جس میں خودکش دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور تعلیمی اداروں جیسی جگہوں کو نشانا بنانے جیسے حملے شامل تھے، تاہم دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور نہ ٹارگٹ کلنگ رک سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان