پاکستان کے محکمہ موسمیات نے چند دن پہلے پیشن گوئی کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا تھا کہ جولائی سے ستمبر کے دوران ملک میں مون سون کی بارشیں معمول سے دس فیصد زیادہ ہوں گی۔
جبکہ سندھ کے ساحل کے ساتھ بحیرہ عرب کے بڑھے ہوئے درجہ حرارت کے باعث امکان ہے کہ سندھ میں مون سون کی بارشیں معمول سے 20 فیصد زائد ہو سکتی ہیں۔
معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے ماحول پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے ڈاکٹر غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’ ضروری نہیں کہ ہر جگہ ہی دس فیصد زیادہ بارشیں ہوں۔‘
ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں کہ ’اس سال ملک میں معمول سے دس فیصد زیادہ مون سون بارشوں کی پیشن گوئی گئی ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ ہی دس فیصد زیادہ بارش ہوگی۔‘
’کہیں کم اور کہیں بہت زیادہ بارش ہوسکتی ہے جس کے باعث کچھ علاقوں، خاص طور پر شمال کے پہاڑی علاقوں میں سیلاب کا خدشہ ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور خیبر پختونخوا کے پہاڑوں سمیت پنجاب کے کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں سیلاب کے قوی امکانات ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے اس سب کے ساتھ ساتھ ’گلیشئیر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ کا بھی خطرہ بڑھ جائے گا۔‘
معمول سے زیادہ مون سون کی بارشوں کے زراعت پر ممکنہ اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ’زراعت پر سیلاب کے اثرات تو منفی ہوں گے۔ اگر اچھی بارشوں کے بعد زرعی علاقوں سے زیادہ پانی کے نکاس کے اچھے انتظامات کیے گئے تو ان بارشوں کا زراعت پر بہت ہی مثبت اثر بھی ہوگا۔‘
مون سون بارشوں کا ٹڈی دل جو پاکستان کے لیے ایک اور بڑی ’آفت‘ ہے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شدید بارشوں کے بعد عارضی طور پر ٹڈی دل کے فصلوں پر حملے کمزور ہوں گے مگر بارشیں ٹڈی دل کی افزائش کا موسم ہوتا ہے۔
’اس لیے خاص طور پر صحرائی علاقں میں بارش کے فوراً بعد ٹڈیوں کے انڈوں اور بچوں کو تلف کرنا انتہائی ضروری ہوگا۔‘
کینیا اور سوڈان میں بڑے عرصے تک ٹڈی دل پر تحقیق کرنے والے پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے ایڈوائزر ڈاکٹر چودھری عنایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے مون سون کی بارشیں معمول سے دس فیصد زیادہ ہونے کی پیش گوئی کے بعد امکان ہے کہ پاکستان میں موجود ٹڈی دل کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔
’بارشوں کے دوران سبزہ اور نباتات اگتے ہیں اور اگر بارش معمول سے زیادہ ہو تو روئیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور ہر جگہ سبزے کی موجودگی ٹدی دل کی افزائش کے لیے بہترین ماحول مہیا کرے گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ٹڈیوں کے بچوں کو وافر مقدار میں کھانا میسر ہوگا۔ جس سے ٹڈیوں میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح مون سون بارشوں کے بعد قوی امکان ہے کہ ٹڈی دل کے اضافے سے فصلوں کو خاصہ نقصان ہوگا۔‘
انھوں نے کاشتکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اب تک پاکستان میں ٹڈی دل 25 فیصد فصلوں کو چٹ کرچکی ہے۔ جس کے نقصان کا تخمینہ تین ارب امریکی ڈالروں کے برابر ہے اور اگر آنے والے دنوں میں ٹڈی دل کے حملے جارے رہے اور 50 فیصد فصل کو نقصان ہوا تو یہ نقصان بڑھ کر تقریباً چھ ارب امریکی ڈالر ہو جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب سندھ آبادکار بورڈ کے رہنما محمود نواز شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک بات تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کسی بھی مخصوص جگہ پر آنے والے چالیس، پینتالیس دنوں کے دوران بارش کی درست پیشن گوئی کا کوئی خاص میکانزم نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان محکمہ موسمیات کی جانب سے کی گئی پیشن گوئی کئی سالوں کے بارشوں کے رکارڈ کو لے کر کی گئی ہے، جس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔‘
ان کے مطابق ’گذشتہ سال مون سون کی بارشیں اگست اور ستمبر میں ہوئیں اس وقت کباس کی چُنائی کا وقت تھا اور کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچا۔ جس کے باعث آباد گار کم کپاس کی فصل اگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہی دنوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہونے سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔‘
مون سون بارشوں کے دوران سیلاب کے خدشے کے پیش نظر، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کچھ دن پہلے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کراچی، حیدرآباد اور صوبے کے دیگر شہروں کے ندی نالوں کی صفائی کا کام فوری شروع کیا جائے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند سالوں سے صوبے کے دیگر بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ صوبائی دارالحکومت کراچی میں مون سون کے دوران شہری سیلاب آتے رہے ہیں، جس میں معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کے ساتھ، کراچی کے انفراسٹرکچر میں گنجائش نہ ہونے، کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے نالوں بھی پھینکنے، برساتی نالوں پر قبضے، کچی بستیوں کے باعث سکڑتی ہوئی لیاری ندی، پی پی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی شہری حکومت کے درمیاں بلدیاتی اختیارات کا تنازع اور ناقص منصوبہ بندی کو ذمیدار قرار دیا جاتا رہا ہے۔