یہ میڈیکل ریپ اصل میں کون ہوتے ہیں؟

ٹریننگ کے بعد چمکتے جوتوں، کھڑی کریز کی پتلون، ہلکے رنگ کی شرٹ اور کسی بھی میچنگ ٹائی کے ساتھ بال وال جما کے میڈیکل ریپ جوان بیگ اٹھائے نوکری پہ نکل پڑتا ہے۔

(پکسابے)

آپ نے جیتے جی مہاتما بدھ بننا ہے تو میڈیکل ریپ ہونے سے اچھا کچھ نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ زیرو سے شروع کریں اور اوپر تک جائیں۔

عام طور پہ سیلز کا پیشہ دنیا بھر میں پیسے والا سمجھا جاتا ہے لیکن یہ سب اس چمک دمک کی وجہ سے ہے جو آپ کسی بھی سیلز ریپ میں دیکھتے ہیں۔

میڈیکل ریپ کو اس چمک دمک کے لیے کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اندر خانے اس کے حالات کیا ہوتے ہیں، ان سب چیزوں کا اندازہ آپ کو تبھی ہوتا ہے جب آپ فیلڈ کے اندر پاؤں رکھتے ہیں۔

جس بچے کو پیسے جلدی کمانے کا شوق ہوتا ہے وہ عام طور پہ ٹیوشن پڑھانے سے کام شروع کرتا ہے، چھوٹے شہر سے تعلق ہو تو اس میں زیادہ رقم نہ ملتی دیکھ کر انشورنس یا میڈیکل ریپی کی لائن کچھ ہی عرصے بعد پکڑ لیتا ہے۔

میڈیکل ریپ ہونا وہ واحد نوکری ہے جو اسے کم وقت میں نسبتا بہتر پیسوں کی ضمانت دیتی ہے لیکن کس قیمت پر یہ پیسے پڑتے ہیں وہ معاملہ آگے کا ہے۔

ایک جونیر بچہ آج 15 سے 35 ہزار روپے کے درمیان کسی بھی کمپنی میں نوکری شروع کرتا ہے۔ کم از کم تعلیم گریجویشن مانگی جاتی ہے، زیادہ پڑھے لکھے ہوں تو بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، ہاں، سائنس گریجویٹ ہوں تو اچھی کمپنیوں میں نوکری کا چانس بڑھ جاتا ہے۔

تو، وہ بچہ سب سے پہلے ٹریننگ لیتا ہے۔ یہ مدت ایک ہفتے سے لے کر ایک ماہ کی ہوتی ہے لیکن اس دوران اسے دواؤں کا لٹریچر ایسے رٹوایا جاتا ہے کہ جیسے اک دونی دونی دو دونی چار! دواؤں سے متعلق چند بنیادی سوالوں کے جواب بھی اسے سکھائے جاتے ہیں لیکن ان جوابوں کے آگے کون سی دنیا ہے، کیا مزید باریکیاں ہیں، یہ اسے فیلڈ کے رگڑے سکھاتے ہیں۔ اس کا کلائنٹ دنیا کا سب سے مشکل کلائنٹ ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر! جو اس سے کئی گنا زیادہ پڑھا لکھا ہے اور اس جیسے دو تین سو کو روز فارغ کراتا ہے۔

ٹریننگ کے بعد چمکتے جوتوں، کھڑی کریز کی پتلون، ہلکے رنگ کی شرٹ اور کسی بھی میچنگ ٹائی کے ساتھ بال وال جما کے جوان بیگ اٹھائے نوکری پہ نکل پڑتا ہے۔

سب سے پہلے اسے صبح کے کونٹیکٹ پوائنٹ پر پہنچنا ہے۔ سمجھ لیجیے یہ اس کی دفتر میں حاضری ہے۔ سات سے نو کے درمیان کسی بھی ٹائم یہ رسم پوری کرنے کے بعد وہ اپنے شیڈول کی نوکری پہ نکل کھڑا ہو گا۔ اس کے پاس ڈائری میں درج ہے کہ اس نے صبح دس ڈاکٹروں سے ملنا ہے۔ اگر سارا کام کسی ایک ہی ہسپتال میں ہے تو یہ تعداد 20 بھی ہو سکتی ہے۔

خیر تو ان 10 یا 15 ملاقاتوں کے دوران چاہے اس کے گھر پہ کوئی آفت ٹوٹی ہو، بھلے اس کے اپنے دانت میں درد ہو، یا کوئی بھی دنیاوی مسئلہ درپیش ہو، اسے ایک مسکراہٹ اپنے منہ پہ سجائے رکھنی ہے۔ خوشگوار موڈ رکھنا ہے اور کوشش یہ بھی کرنی ہے کہ ڈاکٹر پہ اس کا امپریشن اچھا ہی پڑے۔ اس پورے معاملے کے دوران جو چیز اس کے دماغ میں چل رہی ہے وہ 'دوا' لکھوانا ہے۔

ایک انسان گلے میں پھنسے پھندے کے ساتھ 15 لوگوں سے مل رہا ہے اور ان سے ایک ہی بات مختلف انداز میں کر رہا ہے، یہ کیا آسان کام ہے؟ ہرگز نہیں۔

ڈاکٹروں کے اپنے مزاج ہیں، اپنے مسائل ہیں، سب سے بڑھ کر یہ حقیقت کہ میڈیکل ریپ نہ مریض ہیں اور نہ ان کے افسر، تو ان کا رویہ اکثر ایسا ہو جاتا ہے جیسے آپ اپنے کسی ماتحت سے بات کرتے ہیں۔ یار سیدھی زبان میں بات کریں تو ڈاکٹر پیو ہوتا ہے۔ اب یہ صرف صبح کے پندرہ بیس ڈاکٹر ہیں، آٹھ دس رات کو بھی بھگتانے ہیں اور یہ سارا شیڈول کم از کم 10 دن کا ہے۔ مطلب؟ 250 ڈاکٹر 10 دن میں اور اس کے بعد مسلسل وہی روٹ چلتا رہے گا۔

اب 250 افسر تو وہ ہیں جو ایک میڈیکل ریپ 10 دن میں نمٹا رہا ہے، اس کے علاوہ جو مسئلے ہیں وہ آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ فرض کیجیے اندر ڈاکٹر مان بھی گئے کہ دوا لکھ دیں گے لیکن پرچی پہ لکھی دوا ملے گی کہاں سے؟

اب ڈاکٹر سے مل کے نکلے تو باہر والے سارے میڈیکل سٹوروں پہ سٹاک رکھوانا ہے۔ اگر تو تھوڑی بہت بڑی کمپنی ہے، مال چلتا ہے، تب تو ٹھیک، ورنہ ادھار پہ بھی مال رکھوانے کے لیے میڈیکل ریپ کو ایسے ترلے باندھنے پڑیں گے جیسے پرانی فلموں میں کوئی معزز آدمی پگڑی ہاتھ میں رکھ کے مہاجن سے درخواست کرتا تھا کہ قرضہ معاف کر دیجیے مہاراج۔ اب مہاراج کے پاس جگہ ہے، ان کا موڈ اچھا ہے تو وہ مال رکھ لیں گے ورنہ اگلی بار آنے کا کہیں گے یا چٹا انکار بھی ہو سکتا ہے۔ آخر ان کا تو کاروبار ہے اور ریپی کرنے والا غریب جمعہ جمعہ آٹھ دن کی نوکری پہ ہے۔

اچھا اب یہ سلسلہ بھی کلینک کے باہر موجود سارے میڈیکل سٹوروں کے ساتھ چلے گا۔ پرچی ہے، کہیں بھی جا سکتی ہے۔ پینتیس قسم کے لوگوں سے ہزار ہا باتیں سن کر ریپ جو ہے وہ ڈسٹری بیوشن آفس جائے گا۔ یہ دوپہر دو سے پانچ بجے کے درمیان کا وقت ہو گا۔ اب اگلا مرحلہ انہیں قائل کرنے کا ہے کہ بھائی جان فلاں جگہ پہ مال رکھوا دیں، کیش ہے تو بھی سو تحفظات ہوں گے ڈسٹری بیوٹر کے، لیکن اگر ادھار ہے تو پھر ایک دریا کے پار اتر کر اگلا دریا منہ پھاڑے سامنے کھڑا ہو گا۔

خیر جیسے تیسے ان سب دھندوں کے بعد فرصت ملے گی تو اسی کسی ہوئی ٹائی کے ساتھ کہیں بیٹھ کے میڈیکل ریپ کھانا کھائے گا یا کھانے کے لیے گھر جائے گا۔ گھر آئے گا تو سو کام الگ اس کے انتظار میں ہوں گے لیکن اس کے دماغ میں شام کی ورکنگ چل رہی ہو گی۔ چھ سے سات بجے کے درمیان جوان پھر نکل جائے گا۔

شام کو وہ پرائیویٹ کلینکوں میں جائے گا۔ آپ کی نفرت بھری آنکھوں سے گزر کے کبھی کبھی آپ سے پہلے اور 80 فیصدی آپ کے بعد ڈاکٹر صاحب تک رسائی پائے گا۔ انہیں یاد دلائے گا کہ سر جی دنیا میں ایک کمپنی ہماری بھی ہے اور جو دوا ہم بناتے ہیں وہ سب سے اچھی ہے۔ وہ بے نیازی سے سنیں گے اور ہوں ہاں کر کے اسے ٹالنے والی کریں گے۔

ان کی وجہ بھی جینوئن ہے۔ باہر بیٹھے مریضوں نے ہزاروں فیس دینی ہے، ریپ نے کیا دینا ہے؟ ہاں دینے دلانے والے معاملے بھی اسی دنیا میں ہوتے ہیں لیکن وہ کام ریپ کے نہیں ہوتے، وہ مینیجر لیول کے لوگ دیکھتے ہیں۔ تو ریپ جو ہے وہ بے چارہ وہی اپنا بستہ اٹھائے رات دس گیارہ تک ریپیٹ موڈ پہ لگا ہوا یہ ساری کالیں کرے گا اور گھر جانے کی کوشش کرے گا۔

اب گھر آ کے اسے سونا نہیں ہے۔ آج کی پوری رپورٹ بنانی ہے اور اگلے دن کی پلاننگ کرنی ہے۔ یہ بھی سوچنا ہے کہ آج اگر سیل نہیں ہوئی تو کل ڈبل سیل کیسے کرے کیوں کہ اس کے پاس ایک عدد ٹارگٹ ہے جو زندگی میں کبھی کم  نہیں ہونا، ہر مہینے بڑھنا ہے۔ تنخواہ سال بعد بڑھنی ہے، وہ بھی سو احسانوں کے بعد دس سے پندرہ فیصد لیکن ٹارگٹ ہر تین ماہ بعد کم از 30 سے 50 فیصد بڑھنا ہے۔

یہ تو ہو گئی ایک دن کی روٹین۔ اب ہفتے میں دو تین وہ میٹنگز ہیں جو سیلز میٹنگ کہلاتی ہیں اور جن کے لیے وہ دفتر جائے گا۔ جتنا مرضی تگڑا ریپ ہو، ہر روز اچھی پرفارمنس نہیں دے سکتا۔ لو جی ایک میٹنگ میں وہ چیمپئین ہو گا، اس کی مثالیں دی جائیں گی تو اگلی دو میں اس کی ایسی لتر پریڈ ہونی ہے کہ اس نے نوکری چھوڑنے کا سوچنا یا کمپنی بدلنے کا۔ اور اس کشمکش میں کئی سال گزر جانے ہیں۔ وہ تنخواہ سے عین اس طرح بندھا ہے جیسے کسی جانور کو آگے چلانے کے لیے چارہ اس کے منہ سے تھوڑا دور باندھ دیا جائے۔ اس نے بس غریب نے چلتے جانا ہے۔

اس درمیان ایک چیز سیلز انسینٹو بھی ہوتی ہے۔ یعنی کمیشن، آپ جتنا مال بیچیں گے، اتنا کمیشن بھی ملے گا۔ لیکن یہ عجیب ہی معاملہ ہو گا۔ سو ریپ میں سے دو یا تین ہوں گے جو کامیابی سے ساری زندگی انسینٹو اٹھاتے رہیں گے، باقی چھیانوے ستانوے غریب سر توڑ کوشش کر کے بھی مشکل سے تنخواہ کما سکیں گے۔

اس کی بھی وجہ ہے۔ ایک شعر دیکھیے؛

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

عین اسی طرح میڈیکل ریپ بھی یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یہ جتنے بھی آپ موٹیویشنل سپیکر دیکھتے ہیں، گرو دیکھتے ہیں، سیلز کی ٹریننگ دیکھتے ہیں، یہ ان کے لیے ہوتی ہیں جماندروں جو میڈیکل ریپ نہیں ہوتے۔ لیکن سیکھ وہ غریب کچھ نہیں سکتے کیوں کہ اندرکھاتے وہ اس فیلڈ کے لیے بنے نہیں ہوتے۔ وہ روزی روٹی کرتے رہتے ہیں، کام چلتا رہتا ہے، گوڈے گٹے جواب دیتے ہیں تو یا ایک لیول اپ ہو کے ٹیم سنبھال لیتے ہیں یا چھوٹا موٹا اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ جو بڑے ہوٹلوں میں کھانے، فارن ٹرپ، پہاڑوں میں میٹنگیں آپ کو نظر آ رہی ہوتی ہیں، ان میں شامل میڈیکل ریپ اندر بیٹھے آپس میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یار کمپنی یہی پیسے ہمیں دے دیتی تو اگلے مہینے بہن کی شادی میں کام آ جاتے، باپ کا آپریشن ہو جاتا، کسی کی چھت ڈلنی ہوتی ہے، کسی کے بچوں کی فیس کا رولا چل رہا ہوتا ہے، لیکن ٹیپ ٹاپ ایسی کہ دور سے جو دیکھے وہ کہے کہ بھائی کی لاٹری لگی ہے۔

یہ سب اچھی بڑی کمپنیوں کے ڈیکورم کا حصہ ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں اس چمک دمک کو کمپنی کا مستقل سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ جو یہ سب نہ کرے وہ ہلکی کمپنی سمجھی جاتی ہے لیکن مزدور بے چارہ، میڈیکل ریپ ساڈا، او ترسدا وی ریندا اے تے مزے وی کردا جے۔

جو سب سے بڑی تلوار کسی بھی ریپ کے سر پہ لٹکتی ہے، وہ ہے چھاپہ۔ کسی دن موسم اچھا ہے، یا کوئی گھر میں کام ہے، جوان دو تین ڈاکٹروں کو بیچ میں سے چھوڑ دیتا ہے اور انہیں ملنے کی بجائے اپنے کام نمٹا لیتا ہے تو یہ بہت بڑا رسک ہے۔ پیچھے سے مینیجر اگر اسے چیک کرنے پہنچ گیا اور ریپ نہ ہوا تو نوکری تیل ہے۔ یار، اگر آپ انسان ہیں اور آپ نے دس دن میں ڈھائی سو لوگ ملنے ہیں تو سوچیں کہ ڈھائی سو چھاپے بھی آپ کی گردن پہ سوار ہیں۔ ایک دو وارننگ کے بعد سکون سے چھٹی کرائی جا سکتی ہے۔

کل ملا کے اس نوکری میں ہر کوئی آپ کا افسر اعلی ہے۔ کیا ڈاکٹر، کیا کمپاؤنڈر، کیا میڈیکل سٹور والا، کیا ڈسٹری بیوٹر، کیا آپ کا باس، کیا اس کا باس اور کیا کمپنی کا مالک! اور کبھی کبھار ایسا بھی ہو گا کہ مال بکوانے کو آپ اپنی جیب سے ڈسکاؤنٹ دینے میں پوری تنخواہ لگا دیں گے اور رہیں گے آپ پھر بھی سب کے نوکر، کیوں کہ یہ احسان نہیں تھا کمپنی پر، یہ تو ٹارگٹ تھا جسے آپ نے پورا کیا، چاہے جیب سے پیسے دیے۔ نوکری رہی تو پھر آ جائیں گے۔

خلاصہ کلام: اس ساری بھاگم بھاگ غلامی کے باوجود اگر روز صبح آپ کی سفید شرٹ چمک رہی ہے، خوبصورت سی ٹائی آپ نے باندھی ہوئی ہے، بال سلیقے سے جمے ہوئے ہیں، جوتوں میں سامنے والے کی شکل تک نظر آتی ہے، بیگ آپ کا صاف ستھرا نواں نکور ہے، تو آپ سے بڑا کون مہاتما بدھ اس دنیا میں ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ