کیا بھارت میں خالصتان تحریک کی بنیاد راولپنڈی میں پڑی؟

خالصتان تحریک کا باعث جو واقعہ بنا، وہ راولپنڈی کے ایک گردوارے میں پیش آیا تھا۔

گردوارے کے مرکزی ہال کا اندرونی حصہ جہاں مذہبی تقریبات منعقد ہوتی تھیں (سجاد اظہر)

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں 13 اپریل، 1978 کو امرتسر جانا پڑے گا، جہاں اس روز سکھوں کے دو فرقوں میں لڑائی ہوئی اور 16 سکھ مارے گئے۔ اس لڑائی کی وجہ سکھوں میں ایک نرنکاری فرقہ بنتا ہے جس کے عقائد باقی سکھوں سے مختلف ہیں۔

سکھ بھارتی حکومت سے اس فرقے پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت انکار کر دیتی ہے جس پر سکھ اپنے لیے الگ ملک خالصتان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

راولپنڈی میں نرنکاری بازار کا نام تو سب نے سن رکھا ہے۔ اسی محلے میں اس فرقے کی بنیاد پڑی۔ یہاں آج بھی نرنکاری گردوارہ موجود ہے جس میں اس وقت شملہ اسلامیہ ہائی سکول قائم ہے۔ جب یہ گردوارہ رنجیت سنگھ کے دورمیں تعمیر ہوا تو اس وقت یہ چھ کنال پر مشتمل ایک وسیع و عریض تین منزلہ کمپلیکس تھا جس کے چاروں طرف چار دروازے تھے جو مختلف گلیوں میں کھلتے تھے۔

یہاں ایک کنواں بھی تھا مگر اب تنگ سی گلی میں ایک دروازہ باقی رہ گیا ہے اور تمام جگہ بمشکل ڈیڑھ کنال رہ گئی ہے، باقی جگہ قبضہ گروپوں نے ہتھیا کر اپنے گھر بنا لیے ہیں حتیٰ کہ گردوارے کی دیوار پر اپنی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔

2005 کے زلزلے میں اس کی تیسری منزل منہدم ہو گئی تھی جس کے بعد اس کی اب دو منزلیں رہ گئی ہیں۔ 1956 میں یہاں شملہ ہائی سکول قائم کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف کے درمیان گردوارے کی ملکیت پر تنازع چل رہا ہے جو عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔

سکول کے ہیڈ ماسٹر قاضی ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’یہاں بہت کم سکھ آتے ہیں، کبھی کبھی کوئی وفد پاکستان یا بھارت سے آ جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں پرانے نقشے ہوتے ہیں۔ اگر آج بھی محکمہ اوقاف اس کی اصل جگہ کی نشاندہی کروائے تو شاید آدھا محلہ گرانا پڑ جائے۔‘

انہوں نے کہا ’اس کے چار دروازوں میں سے باقی رہ جانے والے ایک دروازے کی گلی بھی بہت تنگ رہ گئی ہے اور اس کے ساتھ بھی دکانیں بن گئی ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ آج سے پانچ، چھ سال پہلے انہیں بھارت سے ایک خط آیا تھا جس میں انہیں وہاں ایک تقریب میں بلایا گیا تھا۔

نرنکاری فرقے کی بنیاد اس گردوارے میں پڑی جو راولپنڈی کے نرنکاری بازار میں واقع ہے۔ نرنکاریوں کے دو فرقے ہیں: اصل فرقے کے بانی دیال سنگھ 1783 کو پشاور میں رام سہائے کے گھر میں پیدا ہوئے۔ رام سہائے کی بیوی بی بی لاڈکی سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کی کے خزانچی بھائی وساکھا سنگھ کی بیٹی تھیں۔

جب 30 سال کی عمر میں بی بی لاڈکی کا انتقال ہوا تو دیال سنگھ اپنے ماموں ملکھا سنگھ کے پاس راولپنڈی میں رہنے لگے۔ ملکھا سنگھ ہی راولپنڈی شہر کے بانیوں میں سے ہیں۔ دیال سنگھ کی شادی بھیرہ میں مولا دیوی کے ساتھ ہوئی جس سے اس کے تین بیٹے دربارا سنگھ، بھارا سنگھ اور رتہ سنگھ پیدا ہوئے۔ دیال سنگھ ہر وقت ’دھن نرنکار‘ کا ورد کرتے رہتے جس کا مطلب تھا ’رزق دینے والا عظیم ہے۔‘ اسی وجہ سے لوگ انہیں نرنکاری کہنے لگے۔

اسی جگہ انہوں نے ایک گردوارہ بنایا جہاں سکھ ان سے فیض حاصل کرنے آتے۔ اسی گردوارے میں 1855 میں ان کا انتقال ہوا اور یہیں نرنکاری گردوارے میں ایک گنبد ان کی سمادھی کے طور پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ والے کمرے سے متصل ایک چھوٹا سے برآمدہ ہے جہاں سنگ مرمر کی بنی ہوئی منجھی صاحب ہے جہاں گروگرنتھ صاحب کی پالکی رکھی جاتی تھی۔ جبکہ دوسرے جانب ہال نما کمرہ ہے جہاں سکھوں کی مذہبی تقریبات ہوتی تھیں جس کے آگے سنگ مرمر کے ستونوں پر مشتمل ایک خوبصورت برآمدہ ہے جس میں انتہائی خوبصورت کام ہوا ہوا ہے۔

دیال سنگھ کا خیال تھا کہ سکھ ازم میں جھوٹ، توہم پرستی اور غلط روایتیں شامل ہو گئی ہیں۔ انہوں نے سکھوں کو اصل سکھ ازم کی جانب واپسی کا کہا اور خدا کی بحیثیت نرنکار (بے شکل) عبادت پر زور دیا۔ وہ دراصل گرونانک دور کے سکھ ازم کا احیا چاہتے تھے۔ اس تاریخی گردوارے کے بارے میں اقبال قیصر کی کتاب ’ہسٹوریکل سکھ شرائنز ان پاکستان‘ کے صفحہ 322 پر گردوارے سے متعلق تفصیلات درج ہیں۔ اس گردوارے کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ سکھوں کی مذہبی رسومات کے مطابق پہلی شادی اسی گردوارے میں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل سکھ ہندوانہ رسومات کے مطابق شادیاں کرتے تھے لیکن اس گردوارے میں بھائی بھولا سنگھ کی شادی بی بی نہال کور جی کے ساتھ 1855 میں ہوئی جس میں گرو گرنتھ صاحب کے گرد پھیرے لگا کر شادی کی رسومات ادا کی گئیں۔

اسی گردوارے میں ایک دن وہ واقعہ رونما ہوا جو آگے چل کر نقلی نرنکاری تحریک کا موجب بنا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ایک سکھ بوٹا سنگھ شراب کے نشے میں دھت ہو کر کرتن پڑھ رہا تھا جس پر انہیں دیال سنگھ نے دھکے دے کر گردوارے سے نکال دیا لیکن بوٹا سنگھ نے مری جا کر اپنا الگ گردوارہ بنا لیا۔ بوٹا سنگھ اٹک کا رہائشی تھا جس کی موت مری میں ہی کوڑھ کی بیماری سے ہوئی۔

اوتار سنگھ جو پشاور میں ڈبل روٹیاں فروخت کرتا تھا اس کا چیلا بن گیا۔ سکھوں میں نرنکاری تنازع ایسا ہی ہے جیسا کہ مسلمانوں میں قادیانیوں کا، اس کی وجہ سے سکھوں کے مابین ہونے والی لڑائیوں میں کم و بیش پونے دو لاکھ سکھ مارے جا چکے ہیں۔ اوتار سنگھ تقسیم کے بعد دہلی منتقل ہو گیا جہاں اس نے 1948 میں ’سنت نرنکاری‘ کے نام سے اپنا گروپ رجسٹر کرا لیا اور خود کو بابا گرو نانک کا اوتار قرار دینے لگا جس پر روایتی سکھوں اور اس کے ماننے والوں میں 1950 سے ہی فسادات شروع ہو گئے تھے۔

اقبال قیصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شاید راولپنڈی والے یہ نہیں جانتے کہ نرنکاری فرقے کی وجہ سے سکھوں میں ہونے والے فسادات کی جڑیں اس گردوارے سے ملتی ہیں اور یہاں شملہ ہائی سکول جس گردوارے کی عمارت میں قائم ہے اس کی تاریخی اہمیت کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’بابا دیال سنگھ کے ماننے والے اصلی نرنکاری صوفی پرست لوگ ہیں جو امن کی بات کرتے ہیں، مگر اسی گردوارے میں جب بابا دیال سنگھ نے بوٹا سنگھ کو شراب پی کر کرتن پڑھنے سے منع کیا تو گویا یہ واقعہ ایک الگ فرقے کی بنیاد بن گیا۔ بوٹا سنگھ کے چیلے اوتار سنگھ نے خود کو گرو گوبند سنگھ کے بعد گیارہواں گرو قرار دیا اور کہا کہ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ زندہ گرو نہیں ہے بلکہ میرے بعد میرا بیٹا یا گدی نشین گرو بنے گا اور یہ سلسلہ تاقیامت چلتا رہے گا۔

’باقی سکھوں نے اس فرقے کو سکھ مذہب سے خارج کرنے کی تحریک چلائی۔ اس دوران نقلی نرنکاریوں نے 13 اپریل، 1978 کو ویساکھی کا تہوار گولڈن ٹیمپل میں منانے کاعلان کر دیا۔ سکھوں نے انہیں گولڈن ٹیمپل میں داخل نہ ہونے دیا تو انہوں نے باہر خیمے لگا لیے۔ ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے 13 سکھ بھیجے گئے جنہیں نرنکاریوں نے قتل کر دیا۔

ان کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جرنیل سنگھ بھندرانوالہ نے تحریک چلائی اور حکومت سے اس فرقے پر پابندی کا مطالبہ کیا، حکومت کے انکار پر بھارتی فوج میں موجود سکھوں نے استعفے دے دیے اور یوں خالصتان تحریک چلی جس نے آگے چل کر آپریشن بلیو سٹار اور اندرا گاندھی کے قتل جیسے واقعات کو بھی جنم دیا یہ تنازع آج تک موجود ہے۔

 پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر ستونت سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس گردوارے کی تاریخی اہمیت ہے مگر اس کی ملکیت پر پہلے ہی محکمہ اوقاف اور محکمہ تعلیم کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔ پاکستان بھر میں کوئی دو درجن گردوارے فعال حالت میں ہیں مگر راولپنڈی اسلام آباد میں ایک بھی گردوارہ فعال نہیں اس لیے یہاں سکھوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے حسن ابدال جانا پڑتا ہے۔'

ستونت سنگھ کے مطابق یہاں پہلے سے موجود سکھوں کے گردواروں پر قبضے ہو چکے ہیں، جن کی بحالی کے لیے اگر وہ کوئی تحریک چلائیں گے تو اس سے ان کے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارہ متاثر ہو سکتا ہے، اس لیے انہوں نے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

نرنکاری گردوارے سے باہر نکلتے ہی آپ کو آلو پیاز کے نرخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن اگر سنائی نہیں دیتی تو وہ تاریخ جو یہاں نجانے کب سے سو رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ