ملتان: سرکٹ ہاؤس میں صحافی شاہ محمود قریشی سے کیوں الجھے؟

صحافیوں کے تابڑ توڑ سوالات پر شاہ محمود قریشی دفاعی پوزیشن میں آگئے اور کہا: 'صحافیوں کا کام بحث کرنا نہیں صرف سوال کرنا ہے۔'

پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے  شاہ محمود قریشی سے مطالبہ کیا کہ  عوام سے الگ صوبہ بنانے کا وعدہ  پورا نہ ہونے پر معافی  مانگی جائے (تصویر: سرفراز انصاری)

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے وعدے، متنازع سیکرٹریٹ اور ترقیاتی کام نہ ہونے پر ہفتے کو صحافی وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے الجھ پڑے، جس پر سینیئر پی ٹی آئی رہنما پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔

شاہ محمود قریشی کے آبائی شہر ملتان کے سرکٹ ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں شریک صحافی سرفراز انصاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صحافیوں نے شاہ محمود قریشی سے ترقیاتی کام نہ ہونے کا گلہ کیا اور مطالبہ کیا کہ پی ٹی آئی نے الگ صوبے کا وعدہ پورا نہیں کیا جبکہ جو سیکریٹریٹ بنایا، وہ بھی متنازع ہے۔

سرفراز انصاری کے مطابق صحافیوں کا موقف تھا کہ 'پہلے کہا گیا کہ سیکریٹریٹ بہاولپور میں ہوگا لیکن انتظامیہ نے ملتان میں ہی بورڈز لگا دیے۔ دوسری جانب ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان کہتے ہیں کہ سیکریٹریٹ بہاولپور میں ہے جبکہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں کیمپ آفس بنے ہیں، اسے واضح کیا جائے۔'

سرفراز انصاری نے مزید بتایا کہ صحافیوں کے تابڑ توڑ سوالات پر شاہ محمود قریشی دفاعی پوزیشن میں آگئے اور کہا: 'صحافیوں کا کام بحث کرنا نہیں صرف سوال کرنا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'ملتان اور بہاولپور دونوں شہروں میں سیکریٹریٹ ہیں۔دوسرا یہ کہ الگ صوبہ بنانے کے لیے اسمبلیوں میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے پر صوبے کا قیام ممکن نہیں اور ترقیاتی کام نہ ہونے پر ہم جانیں اور حلقوں کے عوام جانیں، صحافیوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔'

یہ سن کر صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ اگر یہ مسائل درپیش ہیں تو عوام سے الگ صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ ہونے پر معافی مانگیں۔

تاہم شاہ محمود قریشی اس شور شرابے میں اٹھ کر چلے گئے۔

کیا صحافی سوال کی بجائے بحث کا حق رکھتے ہیں؟

اس سوال کے حوالے سے سینیئر صحافی رضی الدین رضی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'صحافیوں کو جب بھی کوئی شخصیت پریس کانفرنس کے لیے مدعو کرتی ہے تو انہیں پہلے غور سے موقف سننا چاہیے اور اس کے بعد اگر خبر نکالنے کے لیے سوال ذہن میں آئیں تو وہ ایک ایک کر کے پوچھ سکتے ہیں۔سوالات کے علاوہ بحث کرنے کی صحافتی اقدار میں گنجائش نہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ 'سرکٹ ہاؤس میں جس طرح صحافیوں نے بلاوجہ کے ایشوز پر بحث شروع کی، ایسا لگ رہا تھا جیسے انہیں عوام سے زیادہ شاہ محمود قریشی پر غصہ ہو۔ اس واقعے میں مسئلہ تو کوئی حل نہیں ہوگا لیکن صحافتی اصولوں کو ضرور ضرب پہنچی ہے۔'

رضی الدین رضی کا مزید کہنا تھا کہ 'صحافی ہر قسم کے ایشوز پر خبریں دے سکتے ہیں، ان کو حل کرنا یا نہ کرنا حکومتی شخصیات کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر وہ لوگوں کو خوش کریں گے تو ووٹ ملیں گی ورنہ لوگ مسترد کردیں گے اور سینیئر سیاستدان بہتر جانتے ہیں کہ انہوں نے سیاست کیسے کرنی ہے۔'

وزیر خارجہ نے اور کیا کہا؟

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کے دوران اس خدشے کا اظہار کیا کہ بھارت، پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر  یہ کوشش کامیاب ہوئی تو اس کے ملکی معیشت پر بھیانک اثرات مرتب ہوں گے، تاہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے بہترین اقدامات کیے ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر بھی بات کی اور کہا کہ 'کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کو 5 اگست کو ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر  پیر کو پاکستان آرہے ہیں، ان کے سامنے کشمیر کا مقدمہ رکھیں گے۔'

شاہ محمود نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے دوران بھی کشمیریوں کے لیے نرمی نہیں کی گئی جبکہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیاں بھی جاری ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت 10 سال برسراقتدار رہیں۔ اگر نیب قوانین میں خامیاں تھیں تو درست کیوں نہیں کی گئیں؟ اب وہ نیب قوانین میں ترمیم کے لیے ہم سے توقع کر رہے ہیں اور ہم بھی تیار ہیں۔'

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ نیب سمیت دیگر قوانین میں ترمیم کے لیے 24 رکنی کمیٹی کا اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست