کلبھوشن یادو اور بھارت کو دوبارہ وکیل کرنے کی پیشکش کرنے کا حکم

وفاقی حکومت کے آرڈیننس میں دی گئی 60 روزہ مدت ختم ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن اور بھارتی حکومت کو وکیل مقرر کرنے کا ایک اور موقع دیا ہے۔

ممبئی میں ایک شخص کلبھوشن یادو کے پوسٹر کےسامنے سے گزر رہا ہے(اے ایف پی)

وفاقی حکومت کے خصوصی آرڈیننس میں دی گئی  60 روزہ مدت ختم ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو اور بھارتی حکومت کو وکیل مقرر کرنے کا ایک اور موقع دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی سپیشل بینچ نے پیر کو وفاقی حکومت کی بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب معاملہ ہائی کورٹ میں ہے تو کیوں نا بھارت کو ایک اور موقع دیا جائے؟ ہو سکتا ہے کہ بھارتی حکومت یا کلبھوشن اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔

 انہوں نے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ بھارت اور کلبھوشن کو ایک بار پھر وکیل مقرر کرنے کی پیشکش کریں، جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ وہ دفتر خارجہ کے ذریعے دوبارہ بھارت سے رابطہ کریں گے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 'اٹارنی جنرل صاحب، ہمیں کلبھوشن کیس کا پس منظر بتائیں اور عدالت کو یہ بھی بتائیں کہ آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عالمی عدالت انصاف نے سزائے موت پر حکم امتناع جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف سٹے آرڈر اب بھی موجودہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی، سزائے موت پر عالمی عدالت انصاف کا سٹے آرڈر موجود ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرڈ یننس جاری کر کے سزا کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کاموقع دیا گیا لیکن کلبھوشن اور بھارت نے وکیل کی سہولت لینے سے انکار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'بھارت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بھاگ رہا ہے، عالمی عدالت کی ہدایت پر کلبھوشن کو دو مرتبہ قونصلر رسائی دی گئی۔'

اٹارنی جنرل کے مطابق بھارت نے تاثر دیا کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی، بھارت اس کیس میں نقائص تلاش کرکے ریلیف لینا چاہتا ہے، لیکن پاکستان تمام بین الاقوامی قوانین پر عمل کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کلبھوشن کو کسی بھی دوسرے قیدی کی طرح مکمل حقوق دیے، اگر کوئی قیدی اپنے لیے وکیل نہ کر سکے تو عدالت اسے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے وکیل مہیا کرتی ہے لہٰذا کلبھوشن کے لیے عدالت وکیل  مقرر کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹارنی جنرل دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ برس عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی سزا کالعدم قرار دینے کی استدعا منظور نہیں کی بلکہ اس نے کلبھوشن کو رہا کرنے کی بھارتی درخواست مسترد کر دی تھی۔

عدالت نے بذریعہ دفتر خارجہ بھارت سے دوبارہ رابطے اور وکیل کی پیشکش کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت تین ستمبر تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد اٹارنی جنرل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بھارتی ہائی کمیشن اگر خود وکیل کر لے تو زیادہ بہتر آپشن ہے۔ اُن سے جب سوال کیا گیا کہ کیا کوئی بھارتی وکیل بھی عدالت میں پیش ہو سکتا ہے یا پاکستانی وکیل کی معاونت کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ایسا کوئی آپشن موجود نہیں، صرف پاکستان میں وکالت کا لائسنس رکھنے والے ہی بھارت ہائی کمیشن یا کلبھوشن کی عدالت میں نمائندگی کر سکیں گے۔'

آج کیس کی سماعت سے دو گھنٹے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف کی سکیورٹی غیر معمولی طورپر سخت کر دی گئی تھی، گاڑیاں عدالت کے احاطے میں لے جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

کمرہ نمبر ایک جہاں کیس کی سماعت ہونا تھی اُسے خالی کروا کر باقاعدہ تلاشی لی گئی۔ یہ اس کیس کی پہلی باضابطہ سماعت تھی اور سماعت سے قبل ایسی غیر معمولی سکیورٹی سب کے لیے حیران کُن تھی کیونکہ آج صرف حکومت کے قانونی نمائندوں نے ہی پیش ہونا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان