نیا سیاسی نقشہ پیش: کیا پاکستان نے درست اقدام اٹھایا ہے؟

پاکستان نے سرکاری نقشے میں تبدیلی کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور سر کریک کے علاقے کو اپنا حصہ دکھایا ہے۔ اس پر چند سابق سفارت کار کیا کہتے ہیں؟

وزیراعظم ہاؤس کی جانب جاری کیا گیا سرکاری نقشہ

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کے ’سرکاری نقشے‘ میں تبدیلی کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور سر کریک کے علاقے کو پاکستان کا حصہ دکھایا ہے۔

نئے سیاسی نقشے میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو بھی صوبے کے حصے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

اس نئے نقشے کی منظوری منگل کو اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔

اجلاس کے بعد وزیر اعظم نے خطاب میں کہا کہ نیا نقشہ اب سے پاکستان کا سرکاری نقشہ ہو گا اور اسے اقوام متحدہ میں بھی پیش کیا جائے گا۔ 'یہی نقشہ اب سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب اور دوسری سرکاری دستاویزات میں بھی استعمال کیا جائے گا۔'

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے، جو کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیتی ہیں۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت نے گذشتہ سال پانچ اگست کو ملکی آئین میں متنازع تبدیلی کرتے ہوئے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے نقشے میں تبدیلی کی اور جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا۔

خیال رہے کہ پاکستان نے پہلی مرتبہ اپنا سیاسی نقشہ پیش کیا ہے۔ اس سے قبل 1949 اور 1976 میں ملک کے انتظامی نقشے جاری کیے گئے تھے۔

پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نئے نقشے پر ملک کی ساری سیاسی قیادت متفق ہے۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اس متعلق اعتماد میں لیا جبکہ کشمیری قیادت بھی اس سلسلے میں آن بورڈ ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان کے نقشے میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

1۔ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش کے ساتھ لگے گی۔

2۔ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع لائن آف کنٹرول پوائنٹ 9842 پر اختتام پذیر ہوتی تھی۔ اب نئے نقشے میں اس کو چین کی سرحد سے ملا دیا گیا ہے۔ یوں نئے نقشے کی حد تک سیاچن پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔

3۔ پاکستان کے جنوب میں واقع متنازع سر کریک کو نئے نقشے میں پاکستان میں شامل کر دیا گیا ہے، جس میں پاکستانی بین الاقوامی سرحد سر کریک کے مشرقی کنارے پر دکھائی گئی ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان کی سرحد سر کریک کے مغربی کنارے تک ہے۔

4۔ نئے نقشے میں سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو بھی صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ فاٹا کا انتظام صوبے میں ضم ہونے سے پہلے مخصوص قوانین کے تحت چلایا جاتا تھا۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود نے حکومتی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کا پاکستان کا حصہ ہونا ہمیشہ سے اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس کا مقصد دنیا اور خصوصاً کشمیر کے لوگوں کو بتانا ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔  

طلعت مسعود نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت مسئلہ کشمیر پر جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے اور نئے سیاسی نقشے کا اجرا انہی جارحانہ پایسیوں کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سلسلے میں متوقع ردعمل کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کونسل پاکستان کے اس عمل کو جبر سے تعبیر کر سکتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ دونوں ملکوں کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دے سکتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف بعض سفارت کاروں نے تحریک انصاف حکومت کے اس اقدام کو ناپسند کرتے ہوئے کہا کہ نیا نقشہ اسلام آباد کا سب سے آخری قدم ہونا چاہیے تھا۔ ایک سابق سفارت کار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حکومت سے تھوڑی جلد بازی ہو گئی ہے، ابھی اس کا وقت نہیں تھا۔ 

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی آزادی سے متعلق ابھی پاکستان کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے، ابھی یہ موقع نہیں تھا کہ نقشے میں بھارت کے زیر انتظام علاقوں کو پاکستان کا حصہ دکھایا جاتا۔ 

ایک دوسرے سابق سفارت کار کا کہنا تھا کہ نقشے میں تبدیلیوں سے چین کے بعض علاقے بھی پاکستان کا حصہ بن جائیں گے، جس پر بیجنگ اعتراض کر سکتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ایک جذباتی فیصلہ ہے کیونکہ پاکستان بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ مانتا ہے، تو ایک متنازع علاقے کو اپنے ملک کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ 

بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ قدم اٹھا کر اسلام آباد نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پورے جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ سجمھتا ہے اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت اس کا حل چاہتا ہے، تو ایسے میں ایک متنازع علاقے کو نقشے کی حد تک اپنا حصہ دکھانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ 

انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی کونسل اس سلسلے میں پاکستان پر اعتراض بھی اٹھا سکتی ہے کہ آپ نے متنازع علاقے کو کیوں اپنا حصہ ظاہر کیا۔ 'نقشہ جاری کرنے سے پہلے اس کا کسی بین الاقوامی ادارے سے منظور کروایا جانا ضروری ہوتا ہے جو کہ موجودہ صورت میں نہیں ہوا۔' 

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے گذشتہ سال کے ایک غلط اقدام کے جواب میں ویسا ہی غلط قدم اٹھانا کوئی عقل مندی نہیں، کسی نے حکومت کو بہت ہی غلط مشورہ دیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان