کشمیر: پاکستان کی پالیسی کیا ہے؟

مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے تو ان کی کارکردگی پر ہر پہر سوال اٹھتے تھے۔ کیا ہم پوچھ سکتے اس ایک سال میں موجودہ کشمیر کمیٹی اور اس کے چیئر مین کی کارکردگی کیا رہی؟

(اے ایف پی)

کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مسلمہ اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بھارت کے نئے بندوبست کو ایک سال ہو چکا۔

لاک ڈاؤن اور کرفیو میں لپٹے اس ایک سال کا حاصل ایک ہی سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے اور اس کی پالیسی کیا ہے؟

اصول اور قاعدے کی بات تو یہ ہے کہ قومی زندگی سے کوئی بحران آن لپٹے تو اس کا حل تلاش کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے، کیونکہ مسئلے کی مبادیات سے آگہی اور اس کے حل کے باب میں دستیاب وسائل اور صلاحیتوں میں کوئی فرد حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

لیکن اس سب کے باوجود اہل اقتدار کا تجاہل عارفانہ ہم طالب علموں کے دامن سے آن لپٹا ہے کہ تم ہی بتاؤ حکومت اور کیا کرتی، کیا حملہ کر دیتی،  تو عجز کے سارے اعتراف کے باوجود چند معروضات پیش کردینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ہر دور کا اپنا ایک بیانیہ (Narrative) ہوتا ہے اور جدو جہد اسی بیانیے سے ہم آہنگ ہوتو کامیاب ہو سکتی ہے۔

کچھ عشرے قبل جب سوویت یونین اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود تھا تو بین الاقوامی بیانیہ کچھ اور تھا اور اس میں حق خود ارادیت کے لیے مسلح جدو جہد کو قبولیت حاصل تھی۔

نائن الیون کے بعد منظر نامہ بدل چکا ہے۔ بین الاقوامی قانون میں اگرچہ آج بھی حق خودارادیت کے لیے مسلح جدو جہد کی نفی نہیں کی جا سکی لیکن زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔یہ زمینی حقائق اگرچہ مسلح جدو جہد کے بارے میں موجود قانون کو نہیں تبدیل کر سکے اور حق خودارادیت کے لیے مسلح جدوجہد کوجائز قرار دینے والی 1949 کے جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 بھی اپنی جگہ موجود ہے اور جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314 اور قرارداد  نمبر 37/43کے ساتھ لگسمبرگ عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے لیکن یہ قانونی شقیں عمل کی دنیا میں، فی الوقت، نافذ العمل نہیں رہیں۔

جنگ کا معاملہ بھی اتنا ناقابل عمل ہو چکا ہے کہ حزب اختلاف کو لاجواب کرنے کے لیے اب سوال پوچھا جاتا ہے: تو کیا میں جنگ کر دوں؟

جنگ، ظاہر ہے کہ، حساب سودو زیاں سے بے نیاز ہو کر نہیں لڑی جا سکتی اور لڑکھڑاتی معیشت کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔ البتہ 'ہوسٹائل پوسچرنگ' کا آپشن موجود تھا لیکن یہ بھی فوری طور پر دیا جاتا تو شاید دنیا بیچ میں پڑ جاتی اور بھارت کو آرٹیکل 370 بحال کرنا پڑتا۔اب جب ایک سال بیت چکا تو یہ آپشن بھی دستیاب نہیں ہے۔

اب کیا کیا جائے؟

حقوق انسانی کا بیانیہ اس وقت دنیا کا مروجہ بیانیہ ہے۔  مشاہدے کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں حریفوں کا ناطقہ بند کرنا ہو تو یہ بہترین عنوان ہے۔

کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی انسانی تاریخ کے بد ترین المیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان چاہتا تو حقوق انسانی کی اس پامالی کو بھارت کے گلے کا طوق بنا سکتا تھا۔ ابھی دو سال پہلے خود اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو جس طرح موضوع بنایا اور بھارت کے خلاف  روانڈا طرز پر انکوائری کمیشن کے قیام کی تجویز دی یہ معمولی واقعہ نہیں تھا۔ افسوس پاکستان میں اس رپورٹ کے مندرجات کبھی ڈھنگ سے زیر بحث ہی نہ آ سکے۔

پاکستان حقوق انسانی کی پامالی کے باب میں بھارت کے خلاف ایسا مقدمہ کھڑا کر سکتا تھا کہ اسے عالمی برادری میں کہیں امان نہ ملتی۔ افسوس حکومت یہ بھی نہ کر سکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت نے کلبھوشن یادیو کے معاملے میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور پاکستان کشمیر جیسے معاملے میں بھارت کو دیوار سے نہ لگا سکا۔ مودی جیسی معلوم انتہا پسند قیادت کے خلاف بھی اگر پاکستانی حکومت حقوق انسانی کا مقدمہ کھڑا نہ کر سکی تو اس سے بڑی غفلت اور نا اہلی کیا ہو سکتی ہے؟

حقوق انسانی کا مقدمہ کھڑا کرنا کتنا مشکل تھا؟ ریاستیں اپنے مفادات کی اسیر ہوتی ہیں وہ بھلے بھارت کے معاشی حجم کے زیر اثر پاکستان کی بات نہ سنتیں لیکن پاکستان دنیا کے اجتماعی ضمیر کے سامنے تو مقدمہ رکھ سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں پاکستان کی کیا کارکردگی رہی؟ ہمارے کتنے سفارت خانوں نے دنیا کے اجتماعی ضمیر کے سامنے کشمیر کا مقدمہ رکھا؟ یہاں تو کسی نے پاکستان میں موجود سفیر حضرات کو بھی ہفتہ وار یا ماہانہ بریفنگ دینے کی زحمت نہیں کی۔

سوشل میڈیا کی صورت اب دنیا سمٹ رہی ہے، آپ دنیا کے سامنے اپنی بات رکھ سکتے ہیں، کیا حکومت نے اس فورم پر کشمیر میں حقوق انسانی کا معاملہ دنیا کے معاشروں کے سامنے رکھنے کی کوئی کوشش کی؟ ریڈ زون کی دہلیز پر ایک 'ٹائم کاؤنٹر' لگا کر یا شاہراہ کشمیر کو شاہراہ سری نگر قرار دے کر کسی کا خیال ہے وہ سرخرو ہو گیا تو یہ خیال خام ہے۔

مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے تو ان کی کارکردگی پر ہر پہر سوال اٹھتے تھے۔ کیا ہم پوچھ سکتے اس ایک سال میں موجودہ کشمیر کمیٹی اور اس کے چیئر مین کی کارکردگی کیا رہی؟ کشمیر کمیٹی کے فرائض میں پہلا فریضہ ہی یہ ہے وہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں حقوق انسانی کے خلاف ورزیوں اور مظالم کو مانیٹر کرے گی اور ان کو سامنے لائے گی۔ اس ایک سال میں اس کمیٹی نے کوئی مانیٹرنگ رپورٹ پیش کی ہو تو بتائیے۔

دنیا میں رائے عامہ کو کشمیر کے لیے ہموار کرنا بھی اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور بیرونی دورے اسی عنوان کے تحت کیے جاتے ہیں۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں اس ضمن میں اس کمیٹی کی کارکردگی کیا رہی؟

ناسازگار لمحے قوموں کی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ ان مشکل لمحوں میں پیش قدمی نہ ہو سکے تو اس بات کو ضرور یقینی بنایا جاتا ہے کہ پسپائی بھی نہ ہو پائے بھلے چیزیں منجمد ہو جائیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں ہم نے دیکھا کہ سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے سے خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔

بے نظیر نے اس فیصلے کی مزاحمت کی اور ایسی مزاحمت کی کہ نہ صرف کشمیر آج سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے بلکہ یہ اصول بھی طے ہو چکا ہے کہ فریقین کی رضامندی کے بغیر اسے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ الگ بات کہ بے نظیر کی حب الوطنی پر یہاں ہمیشہ سوالات ہی اٹھتے رہے۔

وقت کی خوبی یہ ہے کہ اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے۔ آج حالات ناسازگار ہیں تو کل سازگار بھی ہو جائیں گے۔ لیکن حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا وہ کہاں کھڑی ہے اور اس کی پالیسی کیا ہے؟ سوال اب صرف یہی نہیں کہ کیا جناب وزیر اعظم اعلان جنگ ہی کر دیں۔ سوال یہ بھی ہے جنگ کے علاوہ جو کچھ کیا جا سکتا تھا وہ کیوں نہیں کیا جا سکا؟

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر