لاکھوں کے جانور کی کھال چند سو روپوں کی؟

اس مرتبہ اکثر غیر سرکاری فلاحی ادارے کھالیں اکٹھی کرنے سے دور رہے جس کی وجہ سے کھالوں کی بڑی تعداد ضائع ہوئی اور لوگوں نے انہیں کوڑے دانوں میں پھینکا۔

 

کئی غیر سرکاری ادارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں اکٹھا کرنے کے لیے عید سے پہلے بڑی اور مہنگی اشتہاری مہم چلاتے ہیں (اے ایف پی)

’ایک وقت تھا جب فلاحی ادارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں بڑے زور و شور سے اکٹھی کرتے تھے اور انہیں لاکھوں روپوں کا منافع ہوتا تھا مگر اب وہ دن نہیں رہے۔ اس مرتبہ تو ہمیں الٹا نقصان اٹھانا پڑا۔‘

یہ کہنا تھا مدرسہ دارالسلام تلہ گنگ کے اسلام آباد میں نمائندہ عاصم عباسی کا، جو گذشتہ ایک دہائی سے مختلف فلاحی اداروں سے وابستہ رہے اور عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی کھالیں اکٹھی کرنے کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

عاصم کے مطابق ’اس سال عید پر کھالوں سے ادارے کو کُل 5700 روپے حاصل ہوئے جبکہ ساری سرگرمی پر خرچہ 15 سے 20 ہزار روپے کا ہوا، بالکل ہی گھاٹے کا سودا تھا۔‘

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال مسلمان عید قرباں پر دسیوں لاکھوں جانور ذبح کرتے ہیں۔ جانور کا گوشت تو غربا اور مساکین کے علاوہ عزیز و اقارب میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ تاہم ذبح شدہ جانور کی کھال عام طور پر فلاحی اور رفاہی اداروں کو دے دی جاتی ہے۔

پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے جمع کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس عید پر چھوٹے بڑے جانوروں کی مجموعی طور پر تقریباً ساٹھ لاکھ  کھالیں ملک بھر میں مختلف ڈپوز تک پہنچیں۔

ایسوسی ایشن کے صدر شیخ افضال حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قربان کیے گئے جانوروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہو گی کیونکہ کھالوں کی ایک بڑی تعداد ڈپوز تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے۔

کئی غیر سرکاری ادارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں اکٹھا کرنے کے لیے عید سے پہلے بڑی اشتہاری مہم چلاتے ہیں جبکہ عید کے تینوں دن کھالیں جمع کرنے کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ تاہم گذشتہ چند سالوں سے کھالیں اکٹھا کرنے کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

پشاور میں اس سال بڑے فلاحی اداروں میں صرف الخدمت فاؤنڈیشن اور حمزہ فاؤنڈیشن ہی کھالیں اکٹھا کرتے ہوئے دیکھی گئیں۔ 

تھیلسیمیا کے مریضوں کے لیے خون کے عطیات اکٹھا کرنے والے ادارہ حمزہ فاؤنڈیشن کے سربراہ اعجاز علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے ایک محدود سی مہم چلائی اور محض چند سو کھالیں اکٹھی کیں اور اس کی وجہ کھالوں کی قیمت فروخت میں بے انتہا کمی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کھالیں اکٹھی کرنے پر خرچہ اور محنت بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ اس سے حاصل منافع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

کھالوں کی قیمتیں کیا ہیں؟

اعجاز علی نے کہا کہ انہوں نے اس سال بڑے جانور کی کھال 200 روپے اور چھوٹی کھال 40 سے 50 روپے میں فروخت کیں، یہ قیمتیں گذشتہ سالوں کی نسبت بہت کم ہیں، پہلے بڑی کھال ہزاروں میں بک جایا کرتی تھیں۔

اسی طرح وفاقی دارالحکومت میں بڑی اور چھوٹی کھالوں کی قیمتیں بالترتیب 300 اور 100 روپے تھیں۔ کراچی میں ایک فلاحی ادارے سے منسلک حذیفہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے بڑی کھال 550 روپے اور چھوٹی کھال محض 150 روپے میں فروخت کی۔

چند سال پہلے تک بڑے جانور کی کھال تین ہزار روپے سے زیادہ میں بک جاتی تھی جبکہ چھوٹی کھال بھی پانچ سو روپے سے زیادہ قیمت کی رہتی تھی۔

عاصم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اکثر غیر سرکاری فلاحی ادارے اس عید پر کھالیں اکٹھی کرنے سے دور رہے۔ اسی طرح عید سے ایک مہینہ پہلے دینی مدارس کی نمائندہ تنظیم وفاق المدارس کے ایک اجلاس میں اسلام آباد میں واقع مدارس کو کھالیں جمع نہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

عاصم نے کہا کہ اس عید پر قربانی کے جانوروں کی کھالوں کی بڑی تعداد ضائع ہوئی اور لوگوں نے انہیں کوڑے دانوں میں پھینکا۔

اسلام آباد کے رہائشی محمد اکرام صادق کا کہنا تھا کہ ہر سال جانور کی قربانی کے ایک آدھ گھنٹے میں کسی نا کسی ادارہ کے لوگ آکر کھال لے جایا کرتے تھے مگر اس مرتبہ تو ہمیں خود کھال لے کر پھرنا پڑا۔

شیخ افضال حسین نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر بھی کھالوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں گائے کی فی کھال کی قیمت 60 ڈالرز سے کم ہو کر 15 ڈالرز تک گر گئی ہے۔

قیمتیں میں کمی کیوں؟

شیخ افضال کے خیال میں کرونا وبا نے دوسرے کاروباروں کی طرح دنیا بھر میں چمڑے کی صنعت کو بھی متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے جانوروں کی کھالوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں چمڑے کے کارخانے بند پڑے ہیں، کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی نئے آرڈر آ رہے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان میں کھالوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے عید قرباں گرمیوں میں آ رہی ہے اور شدید گرمی میں کھالیں ڈپوز پہنچنے سے پہلے خراب ہو جاتی ہیں اور قابل استعمال نہیں رہتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی 20 سے 25 فیصد کھالیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ خراب ہونے والی کھال کی وہ قیمت نہیں ملتی جو ٹھیک حالت میں لائے گئے چمڑے کی ہوتی ہے۔

پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے لاہور میں رہنما فہیم احمد کے خیال میں چمڑے کی صنعت حکومت کی بےتوجہی کی وجہ سے بحران کا شکار ہے اور اسی وجہ سے جانوروں کی کھالوں کی قیمتیں بھی ہر سال گر رہی ہیں۔ 'بنگلہ دیش، چین اور بھارت چمڑے کی صنعت میں بہت آگے ہیں جبکہ پاکستان میں لیبر چارجز وہاں سے بہت زیادہ ہیں۔'

کھالوں کا استعمال

جانوروں سے حاصل ہونے والی کھالیں چمڑے کی صنعت میں استعمال ہوتی ہیں۔ شیخ افضال حسین نے عید سے چند روز قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ پاکستان سالانہ 80 کروڑ ڈالرز کے چمڑے کی مصنوعات برآمد کرتا ہے، جن کے لیے سب سے اہم ذریعہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں ثابت ہوتی ہیں۔

’ہماری مصنوعات میں استعمال ہونے والے چمڑے کی کل ضروریات کا تقریباً 40 فیصد قربانی کے تین دنوں میں پورا ہو جاتا تھا۔‘

پاکستان میں چمڑے سے بننے والی مصنوعات کا بڑا حصہ یورپی اور مشرق بعید کے ممالک کو بھیجی جاتی ہیں۔ ان اشیا میں چمڑے سے بنی جیکٹس، دستانے، جوتے، ٹوپیاں، پتلونیں اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔ اسی طرح چمڑے سے بنے کھیلوں کا سامان بھی بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ فہیم احمد کا کہنا تھا کہ خام شکل میں جانوروں کی کھالیں بھی باہر بھیجی جاتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت