ساری زندگی تمبل بیچنے اور بجانے میں صرف کرنے والے ستر سالہ خان محمد

سالوں سے گاؤں گاؤں پیدل جا کر تمبل بیچنے والے خان محمد کا کہنا ہے کہ جس دن وہ تمبل بیچنے نہیں جاتے وہ دن ان سے گزرتا ہی نہیں۔

ستر سالہ خان محمد پشتو روایتی موسیقی میں استعمال ہونے والا تمبل (دف) پچھلے کئی سالوں سے گاؤں گاؤں جا کر گلی محلوں میں بیچ رہے ہیں تاکہ تمبل پشتون معاشرے میں ختم نہ ہو اور وہ اپنی دیہاڑی بھی کما سکے۔

ضلع چارسدہ کے گاؤں مندنی سے تعلق رکھنے والے خان محمد عرف خانے نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’مجھے ایک دن مہمند میں میری ساس نے کہا کہ خانیہ (خان محمد) ہمارے پاس پورے گاؤں میں ایک تمبل ہے اور آئے روز کوئی نہ کوئی بجانے کے لیے لے جاتا ہے، ڈر ہے کہ کوئی بجاتے ہوئے پھاڑ دے گا تو خانیہ آپ پشاور چلے جاؤ اور یہاں کے لوگوں کے لیے تمبل لے کے آؤ۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’جب پشاور پہنچا تو گاڑی میں سوار تھا کہ سڑک کے پاس خانہ بدوش تھے۔ وہاں سے تمبل (دف) کی آواز سنی تو بہت ہی پیارا لگا اور گاڑی کو روک کر اترا تو ان کے پاس مختلف قسم کے چمڑے کے تمبل تھے جس میں بکرے کے چمڑے کا تمبل تھا جس کی آواز بھی تیز تھی جبکہ بھیڑ کے چمڑے کا بھی تمبل بنا رہے تھے۔ لیکن وہ جب  بجانے سے پہلےگرم کرتے تھے تو اس پر چکناہٹ آجاتی تھی جس کی وجہ سے اس کی آواز کم ہوجاتی تھی۔‘

خان محمد نے بتایا کہ انہوں اس وقت بڑے تمبل چالیس سے پچاس روپے میں خرید لیا اور چھوٹے بیس سے تیس روپے میں اور ان کو بوری بھر کر ضلع مہمند لے گئے۔ وہاں جوں ہی انہوں تمبل (دف)کو بجایا تو لوگوں نے اتنا پسند کیا کہ ان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی ان ساری بوری خالی ہوگئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سے وہ باقاعدہ پشاور سے بوری بھر کرلے جاتے تھے اور اس طرح ان کا روزگار شروع ہوگیا۔

خان محمد نے بتایا کہ اب وہ کافی عرصے سے چارسدہ کے مختلف دیہات میں پیدل گھوم پھر کر گلی کوچوں میں تمبل بیچتے ہیں۔ وہ ہر صبح گھر سے بھری بوری کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، کسی گاؤں میں پہنچتے ہی وہ تمبل بجاتے ہیں۔ اس کی آواز سنتے ہی گھروں سے بڑے اور بچے نکل آتے ہیں جبکہ خواتین دروازوں پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور بچے دف کے ساتھ رقص کرتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں تمبل بجانا پسند ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کب کے اس بوری کو پھینک چکے ہوتے۔ ’جب مجھے میرے بچے بھی کہتے ہیں کہ اس کام کو چھوڑ دو تو میں سر ہلا کر کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے لیکن چھوڑتا نہیں ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے چچازاد بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے اور وہ بھی انہیں اکثر تمبل بیچنے اور بجانے سے منع کرتے تھے یہ کہہ کر اس پر اسلام میں پابندی ہے۔ ’میں نے اس کے بارے میں معلوم بھی کیا۔ تاہم ان کے باربار کہنے پر میں نے ان کا گھر چھوڑ کر دوسرے گاؤں میں گھر لے لیا لیکن دف کا کام نہیں چھوڑا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ وہ روز کئی میل دور تک پیدل سفر کرتے ہیں اور جس دن گھر پر رہنا پڑتا ہے تو دن ہی نہیں گزرتا۔

خان محمد نے بتایا کہ تمبل خوشیوں کے موقع پر بجایا جاتا ہے اور اسے زیادہ تر خواتین اپنے بیٹے کی شادی، بھتیجے کی شادی کے لیے یا اپنے رشتہ داروں کے لیے لیتی ہیں۔

خان محمد کے مطابق وہ تمبل بیچ کر ہی اپنی پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کا شادی کرواچکے ہیں جبکہ ایک کی شادی ابھی باقی ہے۔

خبرپختونخوا کے کلچر ڈیپارٹمنٹ کے سابق  آفسر اکبر ہوتی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ تمبل (دف)کو موسیقی میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور نہ صرف روایتی موسیقی میں بلکہ جدید موسیقی میں بھی اس کا خاص استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دف(تمبل) کو صرف پشتو روایتی موسیقی میں نہیں بلکہ دنیا کے مختلف لوگ یعنی بھارتی، مصری، عربی بھی دف بجاتے ہیں۔ اکبر ہوتی نے کہا کہ برصغیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے پیروکار تمبل کو بجاتے ہوئے ایک خاص قسم کی آواز نکالتے ہیں جس سے لوگ لطف اندوز ہوکر ان کے پاس آتے ہیں۔

اںہوں نے کہا کہ تمبل ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس کی احیا کے کیے تمبل(دف) بناے والوں اور بیچنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے جبکہ دف بجانے والے کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان