مسئلہ کشمیر: افغانستان سے کتنی مدد مل سکتی ہے؟

کشمیر کے معاملے پر کھلی حمایت نہ کرنے کی بڑی وجہ افغان پاکستانی ایجنٹ ہونے کے الزام سے ڈرتے ہیں۔

جب بھی بھارت میں مذہب کے کسی معاملے پر مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ افغان پاکستانی پالیسی سے مطابقت رکھنے والی بات کی حمایت نہ کرتے ہوں لیکن وہ ضرور بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں (اے ایف پی)

ایک ایسے وقت میں جب کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے معاملات کی وجہ سے ماحول گرم تر ہوتا جا رہا ہے پاکستان کی جانب سے افغانوں کی حمایت کے حصول کے لیے ایک تازہ کوشش دکھائی دی ہے۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے افغانوں پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں خود پر گزرنے والے حالات کے تناظر میں دیکھیں اور بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ان کا درد محسوس کریں۔

پاکستان کی جانب سے ایک ایسے وقت میں یہ کوشش کی گئی ہے جب بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھوں بابری مسجد کی جگہ رام مندرکا سنگ بنیاد رکھا دیا گیا ہے اور مسلمان اکثریتی ملک افغانستان میں ایک بار پھر بھارت مخالف جذبات سے سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے۔

اس سے قبل بھی جب بھی بھارت میں مسلمانوں کو کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے حامی سمجھے جانے والے ملک افغانستان میں مسلمان اس کے خلاف شدید ردعمل کرتے رہے ہیں۔

بھارت میں مسلم کش فسادات کی خبریں سامنے آنے کے بعد رواں سال مارچ کے اوائل میں بھی افغانستان کے مختلف شہروں میں بھارت مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔ مظاہروں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ شاید بھارت افغانستان کی صورت اہم اتحادی کو کھو دے۔

کابل کے پاکستانی سفارت خانے سے جاری بیان میں دی گئی تفصیلات کے مطابق کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے مجبوری کے طور پر منعقدہ ’ویب نار‘ کا سہارا لیا گیا جس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان مہمان خصوصی تھے جبکہ افغانستان میں پاکستانی سفیر زاہد نصر اللہ خان نے بھی شرکا سے خطاب کیا۔ ویب نار میں مختلف ممالک خصوصا افغانستان میں چین کے سفیر، افغان اراکین پارلیمان، میڈیا، سول سوسائٹی اورتھنک ٹینکس کے نمائندوں کو کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔

زاہد نصراللہ خان نے افغانستان کے ان اہم طبقات سے وابستہ لوگوں کو کشمیر کے اندر بھارت کی جانب سے گذشتہ سال 5 اگست کو کئے گئے اقدامات خصوصا آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کے کشمیریوں کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے ان کو آگاہ کیا گیا۔

سردارمسعود خان

کشمیری صدرسردار مسعود خان نے افغان عمائدین کو تفصیل سے گذشتہ 73 سالوں کے دوران کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کیا اورکہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی حکومت اورتمام طبقات کے لوگ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے لیے خاموشی ختم کر کے آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لوگوں پر خود افغان جہاد کے دوران ایسے حالات گزرے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے درد کو محسوس کرسکیں۔

گلبدین حکمت یار، سابق افغان وزیر اعظم

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ اور افغانستان کے دوبار وزیر اعظم رہنے والے گلبدین حکمت یار نے ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو افغان جہاد سے سبق حاصل کرنا چاہیے اورسمجھنا چاہیے کہ طاقت کسی مسئلے کا حل نہیں اس لیے بھارت کے پاس اگر اس سارے قضیے کا کوئی ایک حل ہے تو وہ ہے کہ وہ کشمیریوں کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کا حق دے دے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذاکر جلالے، یونیورسٹی استاد

اس قسم کی کوئی کوشش افغانستان کے اندر کتنا رنگ لاسکتی ہے اور پاکستان افغانستان میں سے کشمیریوں کے لیے کتنی حمایت حاصل کر پائے گا کے سوال کے جواب میں کابل میں نجی کاردان یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کا مضمون پڑھانے والے استاد ذاکر جلالے کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب امریکہ وہاں آیا تو بھارت نے کوشش کی کہ وہ یہاں اپنے لیے نرم گوشہ بنا لے۔

اس نے اس کے لیے پاکستان کے خلاف طالبان کی حمایت کرنے کے الزامات کا بھی فائدہ اٹھایا لیکن اس کے باوجود کہ افغانستان کے لوگ بھارت کو اپنی مدد کرنے والا پانچواں بڑا ڈونر ملک بھی سمجھتے ہیں جب بھی ہندوستان کے حوالے سے کشمیریوں کے ساتھ زیادتی یا کوئی اوراسلام مخالف خبر آتی ہے تو افغانوں کے جذبات امڈ آتے ہیں اور وہ بھارت مخالف جذبات سے سوشل میڈیا کو بھر دیتے ہیں۔ وہ سڑکوں پر بھی نکل آتے ہیں اوربھارت کی یہ ’سافٹ پاور‘ ایک منٹ میں زیرو ہوجاتی ہے۔

جب بھی بھارت میں مذہب کے کسی معاملے پر مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ افغان پاکستانی پالیسی سے مطابقت رکھنے والی بات کی حمایت نہ کرتے ہوں لیکن وہ ضرور بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

’ہاں کشمیر کے معاملے پر لوگ کھل کر اس لیے بھی اظہارخیال نہیں کرتے کہ ایسی کوئی بات کرنے والے کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس پر پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ