والدین عقلمندی سے کام لیں تو بچے بھی کامیاب کاروبار کر سکتے ہیں

لاہور کی رہائشی سامعیہ عمران نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انہوں نے کرونا کے لاک ڈاؤن کے دوران جب سکولز بھی بند ہیں، اپنے بچوں کو  دین و دنیا کا وہ سبق دیا جو شاید وہ ان کی اس چھوٹی سی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دے پائیں تھیں۔

مہک کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار ابھی طیب کے کاروبار کی طرح اتنا کامیاب نہیں ہوا مگر انہیں امید ہے کہ جلد وہ بھی طیب کی طرح کامیابی حاصل کریں گی  (تصاویر: فاطمہ علی)

'میں نے اپنے بچوں کوکاروبار کا آئیڈیا سوچنے کے لیے دو دن دیے۔  دراصل جب کرونا شروع ہوا اور سکول بند ہوگئے تو میں نے نوٹس کیا کہ میرے بچوں کا سکرین ٹائم بہت بڑھ گیا ہے۔'

'میں اپنے  11 سالہ بیٹے طیب اور 14 سالہ بیٹی مہک  کو کسی صحت مندانہ سرگرمی میں مصروف کرنا چاہتی تھی۔ میں نے ان دونوں سے بات کی اور سمجھایا کہ  ہمارے معاشی حالات بہت اچھے ہیں تو کیوں نہ آپ دونوں  کوئی ایسا کام کریں جس میں ہم نہ صرف ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں بلکہ اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی کاروبار کرنے کے بارے میں بھی کچھ سیکھ سکیں۔'

میں انہیں کاروبار کے ساتھ ساتھ صدقہ اور زکوۃ کے تصور سے بھی آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ اور ان کا سکرین ٹائم کم کرنا چاہتی تھی۔'

لاہور کی رہائشی سامعیہ عمران نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انہوں نے کرونا کے لاک ڈاؤن کے دوران جب سکولز بھی بند ہیں، اپنے بچوں کو  دین و دنیا کا وہ سبق دیا جو شاید وہ ان کی اس چھوٹی سی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دے پائیں تھیں۔

سامعیہ نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ مئی کے مہینے میں انہوں نے اپنے بچوں سے بات کی اور انہیں بزنس آئیڈیا سوچنے کے لیے دو دن دیے۔

'میری بیٹی مہک تو پہلے سے ہی آرٹس کی شوقین تھی اور اسے مصنوعی جیولری بنانے کا شوق ہے تو اس نے بتا دیا کہ وہ وہی کریں گی ۔ ان کا کام بہت محنت طلب ہے اور وہ ساری جیولری ہاتھ سے بناتی ہیں جبکہ جیولری اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اسے چھت سے بھی نیچے پھینکیں تو وہ ٹوٹتی نہیں ہے۔'

مہک نے اپنے مصنوعی زیورات بیچنے کے لیے انسٹا گرام پر 'اٹی بٹی کری ایشن' کے نام سے پیج بنایا اور کام شروع کر دیا۔ طیب کی مجھے کچھ مدد کرنا پڑی کیونکہ وہ کوئی ایسا آئیڈیا ڈھونڈ رہے تھے جو کرونا کی وبا کے دوران کار آمد ثابت ہو سکتا تھا۔ '

سامعیہ نے بتایا کہ انہیں آئیڈیا سوچتے ہوئے یاد آیا کہ بچپن میں انہوں نے ایک بار  شیمپو کی  ایک ایسی بوتل دیکھی تھی جس کے اندر ایک کھلونا تھا۔

'میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم کھلونوں والے صابن بنائیں ۔ اور وہ بھی نامیاتی [آرگینک] صابن جو جلد کے لیے اچھے ہوں۔ اور انہیں ہم گھر پر بنائیں اور ان میں کھلونے بھی ایسے ڈالیں گے جو بچوں کے لیے نقصان دہ نہ ہوں۔ دراصل میں اپنی اور اپنے بچوں کی جلد کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہتی ہوں اس لیے میں ان کی جلد پر استعمال ہونے والی مصنوعات باہر کے ممالک سے لاتی ہوں مگر چونکہ اس سال ہم کرونا کی وجہ سے کہیں سفر نہیں کر سکے اور یہاں کی مصنوعات پر مجھے اتنا بھروسہ نہیں ہے اسی لیے  میں نے گھر پرطیب کے ساتھ نامیاتی [آرگینک] صابن بنانے شروع کردیے۔'

'اور پھر ہم نے ان میں کھلونے ڈالنے شروع کر دیے ۔ دراصل یہ پورا کام میں اور طیب خود گھر پر اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ طیب نے انسٹا گرام پر 'سوپٹیسٹک' کے نام سے ایک پیج بنایا اور وہاں ہم نے ان صابنوں کے آرڈر لینے شروع کیے۔ انسٹا گرام پر ہمارے  ہمارے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔'

' ہم صابن بناتے ہیں انہیں پیک کرتے ہیں اور ہم خود جاکر انہیں ڈیلیور کر کے آتے ہیں اور اس سب میں ہم کسی اور کی مدد نہیں لیتے۔ مگر اب ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم اس سارے کام کے لیے اب کوئی  مدد گار ڈھونڈ لیں  کیونکہ ہمارا یہ کاروبار دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ '

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، 'میں دیکھتا تھا کہ میری ماما کو میری چھوٹی بہن جو چھ سال کی ہے اسے بار بار ہاتھ دھلوانے میں بہت مسئلہ ہوتا ہے وہ شوق سے ہاتھ نہیں دھوتیں تو میں نے سوچا کہ اگر ہم صابن میں کھلونا ڈال دیں تو بچے خوشی خوشی ہاتھ دھوئیں گے۔ بس یہ آئیڈیا لوگوں کو بھی اچھا لگا اور میرے بنائے ہوئے صابن بکنے لگے۔ پہلے تو میں جو منافع آتا تھا اس کا 20 فیصد چیرٹی میں دے دیتا تھا اور اب  میں کبھی 90 اور کبھی تو 100 فیصد بھی چیرٹی میں دے دیتا ہوں۔'

مہک کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار ابھی طیب کے کاروبار کی طرح اتنا کامیاب نہیں ہوا مگر انہیں امید ہے کہ جلد وہ بھی طیب کی طرح کامیابی حاصل کریں گی۔ ' میں نے شروع میں اپنی کمائی کا 20 فیصد حصہ چیرٹی میں دیا اور اب میں کبھی کبھار 90 فیصد بھی دے دیتی ہوں ۔'

سامعیہ نے بتایا،  'دراصل ہم نے پہلے دو صابن بنائے ہی میری چھوٹی بیٹی دعا کے لیے تھے، تین ماہ ہوچکے ہیں ہم ان صابنوں کے ساتھ ایک کھیل کھیل رہے ہیں ۔ دعا کے صابن ابھی تک ختم نہیں ہوئے اور ہم نے انہیں کہا ہے کہ اس کھیل کا اصول یہ ہے کہ وہ صابن توڑ نہیں سکتیں کیونکہ جہاں صابن ٹوٹا کھیل ختم اور کھلونا بھی نہیں ملے گا۔ اب وہ اسی کھلونے کو صابن سے نکالنے کے چکر میں سخت محنت کر رہی ہیں اور ہر تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ دھوتی ہیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'اس سارے کاروبار کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ان کو بیچ کر ہمیں جو منافع ملتا ہے اسے ہم صدقہ و خیرات یا زکوٰۃ کے طور پر دے دیتے ہیں اور یہ نہیں کہ کوئی بھی دروازے پر آیا تو اسے پیسے دے دیے بلکہ ہم نے کچھ ایسے سفید پوش گھر ڈھونڈے جنہیں ضرورت تھی اور ہم ان کی مدد کرتے ہیں اس کے علاوہ ہم نے انہیں صابنوں سے حاصل ہونے والے منافع سے دو ایسے بچے  جن کے والد حیات نہیں تھے اور ان کی والدہ کا کام بھی ختم ہو چکا تھا اور وہ سڑک پر جوس بیچتے تھے، انہیں ایک چھوٹی سی دکان بنا کر دی اسی طرح ایک گائوں میں ہم نے ایک خاتون کو ایک دکان کھلوا کر دی تاکہ وہ اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کما سکیں۔'

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Hot wheels Sold

A post shared by (@soaptastic.pkofficial) on

'اس کے علاوہ پی آئی اے پلین کریش میں عارف اقبال فاروقی جنہوں نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو کھویا تھا، انہوں نے ہم سے چیرٹی کے لیے رابطہ کیا تاکہ وہ بھی کچھ ضرورت مند خاندانوں کی مدد کرسکیں اور اس کا ثواب پی کے 3803 میں دنیا سے جانے والوں کو ملے۔'

عارف اقبال فاروقی نے اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے جانےوالے پیغام میں بھی طیب کے اس کاروبار کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ  طیب نے عارف کو ان کے تینوں بچوں کے نام کے صابن بھی بھیجے تاکہ وہ روز ان سے ہاتھ دھوئیں اور انہیں یاد کریں اور جب ان سے کھلونے نکلیں تو وہ انہیں سنبھال کر رکھیں۔

طیب اور مہک نے اپنے کاروبار سے آنے والے منافع کی رقم لاہور کے 'گھرکی ہسپتال' کو بھی بھیجی ۔ ان کی والدہ کہتی ہیں، 'بغیر کسی تشہیر کے ہمارے انسٹاگرام پر چار ہزار کے قریب فالوورز ہیں ۔ اس کاروبار سے بچوں نے نہ صرف صدقہ زکوۃ کا تصور سیکھا بلکہ انہیں یہ بھی آئیڈیا ہوا کہ کاروبار کس طرح کیا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کام نے انہیں پر اعتماد بھی کیا ہے۔ ہم نے گھر کے اندر ایک چیرٹی باکس رکھا ہوا ہے اور ان دونوں بچوں کے کاروبار سے جو رقم آتی ہے ہم اسے اسے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔'  

'اب تو میری چھوٹی بیٹی بھی دیکھ رہی ہے اور وہ بھی کہنے لگی کہ اسے بھی کچھ کرنا ہے تو ہم نے اسے فٹ سکربز بنانا سکھائے اور گھر کے اندر ہی ایک چھوٹی سی دکان کھول دی جہاں ہم سب گھر والے اس سے پچاس پچاس روپے میں فٹ سکرب خریدتے ہیں اور دعا ان پیسوں کو چیرٹی باکس میں ڈال دیتی ہے۔'

سامعیہ کہتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کے بچوں نے بہت جلد اس بات کو سیکھ لیا ہے کہ انہیں دوسروں کی مدد کرنی ہے اور خدا نے بچوں کے اس کاروبار میں برکت بھی بہت ڈالی ہے۔ 'میں نے اپنے بیٹے سے کہا ہے کہ جب وہ بڑے ہوجائیں تو بے شک دس نئے کاروبار کھولیں مگر اس کاروبار کو چیرٹی کے لیے ہمیشہ چلائیں۔اور آج میں پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ان تین ماہ میں میرے بچوں نے جو سیکھا ہے وہ اس سے پہلے کی زندگی میں کبھی نہیں سیکھا تھا۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی