کاملہ ہیرس کی نامزدگی سے امریکہ میں مقیم پاکستانی کیوں ناخوش؟

بھارتی نژاد کاملہ ہیرس کی امریکی نائب صدر کی امیدوار کے طور پر نامزدگی سے بہت سے پاکستانی نژاد امریکی مخمصے میں پڑ گئے ہیں کہ ٹرمپ کو ووٹ دیں یا انہیں۔

کمالہ ہیریس کیلیفورنیا کے شہراوکلینڈمیں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں (اے ایف پی)

امریکہ میں آباد پاکستانی نژاد شہریوں کے سامنے اس بار کے انتخابات میں کٹھن امتحان کا سامنا ہے، ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسری طرف انڈین لابی۔ 

صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی جانب سے بھارتی نژاد کاملہ ہیرس کی نائب صدر کے لیے نامزدگی کے بعد بہت سے امریکی پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اس اقدام سے بھارتیوں کے لیے امیگریشن اور ملازمتوں کی راہ اور ہموار ہو جائے گی۔ پاکستانی آپس کی گفتگو میں اور وٹس ایپ گروپس میں کچھ اسی قسم کی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکہ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی رنگ دار نسل کی اور انڈیا سے تعلق رکھنے والی خاتون کو بطور امیدوار اس عہدے کے لیے چنا گیا ہے۔ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کاملہ اس سے قبل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں جو بائیڈن کی مخالف تھیں۔ 

مگر امریکی پاکستانیوں کے تحفظات ان کی انڈیا سے وابستگی ہے۔ 

کاملہ ہیریس کیلیفورنیا کے شہراوکلینڈمیں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ بھارت میں جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آنے سے پہلے کاملہ ہیرس کی والدہ شیاملا گوپالن جنوبی بھارت کے شہر چنائی میں رہتی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے کاملہ نے امریکہ اور انڈیا کے درمیان مضبوط رشتوں کو ’اٹوٹ‘ قرار دیا جس کے بعد وہ امریکہ میں مقیم انڈین کمیونٹی کی آنکھوں کا تارا بن گئی ہیں۔

وہ اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی جاتی رہتی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بسے پاکستانی اس بار نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں جہا ں ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف اقدام اور خصوصی طور پرتعصبی سیاست سے انحراف کرتے نظر آتے ہیں، وہیں ڈیموکریٹس کی طرف سے کاملہ ہیریس کو نائب صدر کے لیے نامزد کرنا کچھ کنفیوژن سی پیدا کر رہا ہے۔

تیمور دار امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے رہائشی ہیں اور پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’ہم پاکستانی امریکی ہندوستانی کمیونٹی یا کسی اور کمیونٹی  کے مقابلے میں تعداد میں بہت کم ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی کمیونٹی چاہے سیاست ہو، ملازمت ہو یا ٹیکنالوجی ہو غرض ہر شعبے میں نہ صرف آگے آگے ہیں بلکہ رہنمائی بھی کر رہے ہیں، جبکہ ہماری پاکستانی کمیونٹی چھوٹے چھوٹے دھروں میں تقسیم ہے۔ یہ لوگ عید، یا جشنِ آزادی جیسی تقریبات تو منا لیتے ہیں مگر ان کی پہنچ عام لوگوں اور امریکیوں سے تعلق استوا ر کرنے یا لابنگ کو ترجیح نہیں دیتی۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم سیاست ہو یا دیگر شعبہ جات ہم بہت پیچھے ہیں اور وہ لوگ (یعنی بھارتی نژاد) اب پالیسی بنانے والوں میں براہ راست شامل ہیں۔‘

 کاملہ ہیریس بظاہر خود کو ایک ترقی پسند اصلاح پسند کے طور پر پیش کیا، لیکن کچھ لوگوں نے اس دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

ہاشم افضل ایک امریکی یونیورسٹی میں زیرِتعلیم ہیں۔ ان کا  کہنا ہے کہ کاملہ ہیریس نے سیاست میں آنے سے پہلے کیلیفورنیا میں بطور پراسیکیوٹر کی خدمات انجام دیں۔ وہ بطور پراسیکیوٹر لمبی قید کی حمایت کرتی ہے اور چھوٹے جرائم، جن میں اکثر کالی اور بھوری جماعتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کی وکالت بھی کرتی رہی ہیں۔ وہ اسرائیل کی حامی ہیں اور کشمیر کے معاملے میں بھی انکا کو ئی واضع پیغام نہیں ہے۔‘

ہاشم کہتے ہیں، ’اس سے پہلے سینیٹ میں انہوں نے ٹرمپ کے فوجی بجٹ میں اضافے کے ساتھ ہی شام میں جنگ کی حمایت کے لیے بھی ووٹ دیا تھا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا ایک بہت بڑا حصہ سیاہ فام اور بھورے لوگوں کو منشیات کے کیسوں پر جیل بھیجنے میں گزارا۔ بحیثیت پراسیکیوٹر اکثر ان کا کردار تاریخ کے غلط رخ پر ہوتا تھا۔

’میں صرف بحیثیت پاکستانی یا کسی ایک مخصوص عینک سے ان معاملا ت کو نہیں دیکھتا۔ میں اسے انسانیت کی نظر سے دیکھتا ہوں، اس لیے ان کا اسرائیل اور مودی کا حامی ہونا تشویشناک بات ہے۔‘

کاملہ ہیرس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شناخت کے متعلق ہمیشہ مطمئن رہیں اور اپنے آپ کو محض ’امریکی‘ کہتی ہیں۔ سنہ 2019 میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ سیاست دانوں کو اپنے رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خانوں میں فٹ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا: ’میرا کہنا بس یہ ہے کہ میں جو ہوں سو ہوں۔‘ 

کاملہ ہیرس کے ماضی سے جڑے بہت سے ایسے اقدام ہیں جن سے نہ صر ف پاکستانی بلکہ کئی امریکیوں کو بھی اعتراض رہا جب وہ تمام ڈیموکریٹک امیدواروں کے ساتھ صدارتی امیدوار کے لیے مہم چلارہیں تھیں۔ مگر رواں سال جنوری کے بعد سے پہلے کرونا وائرس اور بعد میں نسلی امتیازات اور سلوک کے خلاف مظاہروں نے پورے امریکہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس کے بعد کئی امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کاملہ ہیرس اور جو بائیڈن ٹیم کی حمایت کر رہے ہیں اور پہلی بارڈیموکریٹک پارٹی کاایک سیاہ فام خاتون کو اتنا بڑا ٹکٹ جاری کرنا ٹرمپ کے خلا ف سیاہ فام اور ہسپانوی برادریوں کا ووٹ بینک حاصل کرنے میں مددگار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ایسا نہیں ہے کہ سبھی پاکستان نژاد افراد کو کاملا کے بارے میں تشویش ہو۔ امریکی شہر سیئٹل سے تعلق رکھنے والی کلثوم شاہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان کی نامزدگی پر فرق نہیں کرنا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں، ’میرے خیال میں ہمیں ان کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ دوسروں کی طرح ہمارے پاس بھی کوئی اور بہتر آپشن نہیں ہے۔ ہیرس آزاد خیال آواز ہے اور بائڈین اعتدال پسند ہیں لہٰذا وہ جمہوری اور معتدل قوتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ امریکیوں کی اکثریت سب کے لیے صحت کی دیکھ بھال، مفت کالجوں، معاشرتی انصاف اور مساوات سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ کون ہیں اور کہا ں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کاملہ ہیرس کے حوالے سے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک ایسی خاتون ہیں جنھوں نے متعدد ایسی کہانیاں گھڑیں جو درست نہیں تھیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جیسے کے آپ کو علم ہے کہ انھوں نے پرائمری انتخابات میں بھی بہت بری کارکردگی دکھائی۔ ان سے امید تھی کہ وہ اچھا کریں گی لیکن وہ دو فیصد تک ہی رہیں۔ اس لیے مجھے جھٹکا لگا کہ بائیڈن نے ان کا انتخاب کیا۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ کاملہ ہیرس کا بائیڈن کے ساتھ ڈیموکریٹک پرائمری بحث کے دوران رویہ ’بہت زیادہ تضحیک آمیز اور خوفناک‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’کسی ایسے شخص کا انتخاب کرنا جو آپ کی بے عزتی کرے یقیناً خاصا مشکل ہوتا ہے۔‘

کاملہ ہیرس کا انتخاب کرنا ان لوگوں کے لئے کیا مطلب ہے جنہوں نے کاملہ ہیرس کو تنقید کا نشانہ بنایا جب وہ صدر کے عہدے کے لئے انتخاب لڑ رہی تھیں؟

کاملہ ہیرس کو اس حوالے سے تشویش کا یقینا سامنا کرناپڑے گا۔ اگر ہلیری کلنٹن کو صرف عورت ہونے پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو موجودہ دور میں جہاں ’بلیک لائیوز میٹر‘ کی جدوجہد آج بھی جاری ہے وہاں کاملہ ہیرس کو اپنے خاتون ہونے اور اپنے چہرے کے رنگ کی وجہ سے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا