'لاہور کا راوی پروجیکٹ تیسری بار بھی بنتا نظر نہیں آتا'

وزیراعظم عمران خان نے پانچ کھرب روپے کی لاگت سے حال ہی میں راوی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے، جسے ماضی میں مسلم لیگ ق اور ن لیگ کی حکومتیں ناقابل عمل قرار دے کر ترک کر چکی ہیں۔

راوی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے لیے ایک الگ اتھارٹی تشکیل دی گئی ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

دو ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں راوی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت پنجاب حکومت لاہور میں دریائے راوی کے ایک لاکھ ایکڑ کے قریب رقبے (جو تقریباً 46 سے 48 کلومیٹر بنتا ہے) پر پانچ کھرب روپے کی لاگت سے جدید ترین شہر تعمیر کرے گی، تاہم اس پروجیکٹ کے حوالے سے ماہرین ماحولیات تشویش کا اظہار کرتے نظر آئے۔

احمد رافع عالم، جو نہ صرف ماحولیات کے وکیل ہیں بلکہ پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل اور پنجاب کونسل برائے حفاظت ماحولیات کے رکن اور دریائے راوی کمیشن کے سیکرٹری بھی ہیں، نے راوی ریور فرنٹ اربن پروجیکٹ کے افتتاح کے بعد اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: 'وزیر اعظم نے ایک ایسے منصوبے کا افتتاح کیا جس کی ماحولیاتی منظوری نہیں دی گئی، جبکہ اس پر عملدرآمد ایک ایسی اتھارٹی کرے گی جو ایک ماہ قبل تشکیل دی گئی ہے۔ اس منصوبے کی فزیبیلیٹی کے لیے کنسلٹنٹ سے مشاورت بھی حال ہی میں کی گئی ہے۔'

رافع عالم نے اس پروجیکٹ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ منصوبہ مکمل ہوگا کیونکہ ہم تیسری مرتبہ اس منصوبے کا جنم دیکھ رہے ہیں۔ یہ کووڈ اکانومی ہے جس کے اندر پانچ کھرب روپے تو نہیں ملیں گے اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ یہ منصوبہ آگے جانے والا ہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ریور راوی فرنٹ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ نیا نہیں ہے۔ پہلے 05-2004 میں پاکستان مسلم لیگ ق کے دور میں اور اس کے بعد 14-2013 میں مسلم لیگ ن کے دور میں بھی اس کی فزیبیلیٹی تیار کی گئی تھی اور اب رواں برس جولائی میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے بین الاقوامی کنسلٹنٹس کو اس پروجیکٹ کی پرانی فزیبیلیٹی کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے بلایا تھا۔'

بقول رافع: 'گذشتہ حکومتوں نے اس منصوبے کو چھوڑ دیا تھا، اس لیے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تب سے اب تک کیا تبدیلی آگئی ہے کہ اب عمران خان نے اس منصوبے کا افتتاح بھی کر دیا ہے۔ '

انہوں نے مزید کہا: '2012 میں ایل ڈی اے کو لاہور ضلع کے اندر کے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ پورے لاہور ڈویژن کی ذمہ داری  دی گئی تھی، جس میں ننکانہ، قصور اور لاہور شامل ہیں۔ راوی ریور فرنٹ پروجیکٹ کا رقبہ لاہور ڈویژن کے اندر پڑٹا ہے تو اس طرح قانوناً یہ ایل ڈی اے کے دائرہ کار میں آتا ہے۔'

'2012 سے پہلے لاہور کا ایک ماسٹر پلان تھا، جسے ماسٹر پلان 2020 بھی کہتے ہیں، جس کی منظوری میاں عامر محمود کے زمانے میں لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن نے بھی دی تھی اور پھر 2014 میں ایل ڈی اے نے ماسٹر پلان قواعد کے تحت اس ماسٹر پلان کو اپنایا۔ تاہم 16-2015 میں ایل ڈی اے نے اس ماسٹر پلان میں تبدیلیاں کیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ادارہ ہے جس نے کبھی لاہور ڈویژن کے لیے کوئی سٹڈی نہ کی ہو مگر ذمہ داری اٹھائی ہو، اس کے باوجود وہ  ماسٹر پلاننگ کر رہے ہوں۔'

رافع عالم نے مزید بتایا: '15-2014 سے ہی ایل ڈی اے کو مختلف فورمز نے کہا ہے کہ اسے ایک نیا ماسٹر پلان بنانا پڑے گا اور اس کے لیے ایک بڑی سٹڈی کرنی پڑے گی کہ لاہور کے اندر ہو کیا رہا ہے۔ آبادیاں آگے 20 سے  25 سال میں کس طرح تبدیل ہوں گی۔ جون میں ایل ڈی اے نے ماسٹر پلان 2020 یعنی پرانے ماسٹر پلان کو تیسری مرتبہ اپ ڈیٹ کرنے کے لیے بین الاقوامی کنسلٹنٹس کو بلایا تاکہ وہ اپنی تجویز پیش کریں کہ لاہور کا ماسٹر پلان 2040 کیا ہونا چاہیے؟ ان کنسلٹنٹس میں سے کسی ایک کو چنا جائے گا، پھر وہ لاہور آکر کام شروع کریں گے اور ان کو لاہور ڈویژن کو سمجھنے میں ایک دو سال لگیں گے، پھر وہ اس کی رپورٹ تیار کریں گے اور پیش کرنے میں اور اس رپورٹ کی کنفرمیشن دینے میں چار سے پانچ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔'

بقول رافع: 'اس صورت حال میں جبکہ ہم سب لاہور کی آلودگی کا حال جانتے ہیں، ایسے میں لاہور ماسٹر پلان 2040 کو شروع کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پنجاب اسمبلی نے ایک قانون بھی پاس کیا ہے، جس کے تحت 48 کلومیٹر رقبے پر مشتمل راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کو دیکھنے کے لیے ایک اتھارٹی بنا دی گئی اور اس میں ایل ڈی اے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ ایک طرف ایل ڈی اے ماسٹر پلان بنا رہی ہے اور دوسری جانب اسی پلان میں سے 48 کلومیٹر کا رقبہ نکال کر ایک نئی اتھارٹی کو دے دیا گیا ہے، جو لاہور ڈویژن کے ماسٹر پلان کے ساتھ مربوط نہیں ہوگا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تو اس منصوبے کی فزیبیلیٹی بھی تیار نہیں ہوئی، نہ اس کی ماحولیاتی منظوری لی گئی، نہ زمین حاصل کی گئی مگر وزیر اعظم نے اس کا افتتاح کر دیا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب انہوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ 'سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی کا پانی ہم بھارت کو دے چکے ہیں اور راوی کے وہ نالے جو پاکستان میں موجود ہیں، جیسے کرتار پور کے قریب واقع بئی نالا، اس کا بھی پانی ہندوستان کا ہی ہے، اس لیے راوی کے اندر سالانہ طور پر پانی نہیں ہے۔ 2014 کی فزیبیلیٹی رپورٹ میں درج ہے کہ اگر آپ راوی کے کنارے لوگوں کو گھر دینا چاہتے ہوں تو کوئی نالے کے قریب تو نہیں رہنا چاہے گا، اس لیے اس پانی کو صاف کرنا پڑے گا۔'

بقول رافع: 'اس وقت فزیبیلیٹی رپورٹ بنانے والے ماہرین نے کہا تھا کہ لاہور میں 10 سے 12 ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس ہونے چاہییں تاکہ لاہور کا دو ہزار کیوسک گندا پانی  جو ہر دن راوی کے اندر پھینکا جاتا ہے اسے ٹریٹ کیا جائے تاکہ وہاں جو لوگ جائیداد خریدیں وہ کم از کم نالے کے قریب نہ رہ رہے ہوں۔ ان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی قیمتیں لاکھوں ڈالرز میں تھی اسی لیے مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس منصوبے کو نا قابل عمل قرار دے کر چھوڑ دیا تھا۔'

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: 'اس منصوبے میں ایک بنیادی خرابی یہ بھی ہے کہ فرض کرلیں کہ آپ کو صاف پانی بھی مل جاتا ہے، لاہور کے گندے پانی کو صاف کرنے کے لیے پیسے بھی کہیں سے مل جاتے ہیں، آپ پاکستان میں وہ انجینیئر بھی ڈھونڈ لیں گے جو ان پلانٹس کو چلا سکتے ہیں اور یہ سب کرکے آپ پانچ کھرب روپے کی لاگت سے لاہور میں یہ منصوبہ لے بھی آتے ہیں،تو تب یہ بھی یاد رکھیے گا کہ اگر آپ راوی کو بیسن کے تحت نہیں سمجھیں گے تو سیالکوٹ کا آدھا، فیصل آباد کا آدھا اور گجرانوالہ کا سارا گندا پانی واپس راوی میں آتا ہے، جس کی وجہ سے جو انویسٹمنٹ آپ نے راوی کو صاف کرنے میں کی ہے، وہ بالکل ضائع ہوجائے گی۔'

رافع عالم کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں چند ایسے شہر اور ملک ہیں جہاں نہروں اور ندیوں کو صاف کیا گیا ہے اور ان کامیاب منصوبوں میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ منصوبہ بنانے والوں کے پاس ایک ایسی سوچ یا نظریہ تھا جو ہمارے سیاسی سائیکل سے طویل ہے۔ ہمارا سیاسی سائیکل پانچ سال کا ہے جبکہ نہر کو صاف کرنے میں 25 سال لگتے ہیں تو آپ کا وژن بھی 20 یا 25 سال کا ہونا چاہیے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات