میرے شوہر کے خلاف کارروائی ناکافی ہے: والدہ رومینہ اشرفی

ایرانی قانون کے مطابق اگر کوئی باپ اپنی اولاد کو مار ڈالتا ہے تو وہاں قصاص واجب نہیں ہوتا اور انتہائی سزا کی صورت میں اسے تاوان اور قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔

(انڈپینڈنٹ فارسی)

رعنا دشتی تیرہ سالہ رومینہ اشرفی کی والدہ ہیں جنھیں رواں سال جون میں ان کے والد نے قتل کر دیا تھا۔

ایرانی قانون کے تحت مذکورہ مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ 'ان کے شوہر کو صرف نو سال قید اور بہمن خاوری کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔'

بہمن خاوری پر یہ الزام تھا کہ رومینہ اشرفی ان کے ساتھ اپنے گھر سے فرار ہوئیں جس کے بعد ان کے والد نے سوتے میں انہیں درانتی سے گلا کاٹ کر قتل کر دیا تھا۔

رعنا دشتی نے مزید کہا کہ 'عدالت کے اس فیصلے سے مجھ میں اور میرے اہل خانہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور ہم اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کے خلاف قصاص یا دیگر سخت قانونی کارروائی ہونا چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا وہ اب نہیں چاہتیں کہ ان کے شوہر کبھی واپس گھر لوٹیں۔ 'پندرہ سال اکٹھے رہنے کے بعد اب مجھے اپنے شوہر کے ساتھ مزید رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔  نہ ہی مجھے اس انسان سے کوئی امید ہو سکتی ہے جو ہمارے لیے اس المیے کا باعث بنا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے اور اپنے والد کے خاندان کی سلامتی کے حوالے سے بھی پریشان ہیں۔

رعنا دشتی نے دعوی کیا کہ ان کے شوہر کے اہل خانہ  اس مقدمے کے دوران ان کے اکلوتے بچے کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں اور انہیں ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کو کم ازکم سزا کی صورت میں عمر قید یا جلاوطن کر دیا جانا چاہیے  کیوں کہ شوہر کی رہائی ان کے بچوں کے لیے جان لیوا ہو سکتی ہے۔ 

رومینہ کے والد نے اپنی بیٹی کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔ ایرانی قانون کے مطابق اگر کوئی باپ اپنی اولاد کو مار ڈالتا ہے تو وہاں قصاص واجب نہیں ہوتا اور انتہائی سزا کی صورت میں اسے تاوان اور قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کے مقدمات میں ان قوانین پر پہلے  بھی تحفظات سامنے لا چکے ہیں۔ ایرانی فیملی پروٹیکشن قانون غیر منصفانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کسی بھی حالات میں یہ قانون خاندان کے دوسرے اراکین کی زندگیوں کے بارے میں نہ ہی ضامن ہو سکتا ہے اور نہ ان کی حفاظت کرتا ہے۔

رومینہ کے والد کے بارے میں یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ اپنی بیٹی کو قتل کرنے سے پہلے انہوں نے ایرانی قانون کے مطابق اپنی زیادہ سے زیادہ سزا کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کی تھیں۔

ایرانی رائے عامہ بھی نو سال کی اس مختصر سزا کی سختی سے مخالفت کر رہی ہے۔

13 سالہ رومینہ اشرفی کو رواں سال جون میں ان کے والد نے سوتے ہوئے تیز دھار درانتی سے قتل کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ گیلان میں غیرت کے نام پر اس قتل سے قبل انہوں نے اپنی بیٹی کو چوہے مار دوا سے خود کشی کرنے کی ترغیب بھی دی تھی۔ رعنا دشتی کے مطابق وہ انہیں بھی کہتے تھے کہ تیرہ سالہ رومینہ کو خود کشی کرنے پہ مجبور کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین