برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی مسلم خاتون کا اعزاز

نور عنایت خان کے گھر کے باہر نصب تختی لندن میں موجود 950 یادگاری تختیوں میں سے ایک ہے۔ ان تختیوں میں سے 14 فیصد خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

انگلش ہیریٹیج ٹرسٹ نے لندن میں نور  کے نام سے یادگاری تختی لگائی ہے جو کہ عام طور پر مشہور شخصیات کے لیے لگائی جاتی ہے۔(پبلک ڈومین)

دوسری عالمی جنگ کے دوران محض30 سال کی عمر میں نازیوں کی خفیہ پولیس کے ہاتھوں ماری جانے والی نور عنایت خان نے قید میں تشدد کے باوجود برطانیہ کا کوئی راز افشا نہیں کیا۔  ان کے آخری الفاظ 'آزادی، آزادی' تھے۔

سعودی خبررساں ادارے العربیہ کے مطابق برطانیہ میں ان مسلمان شہزادی کو اعزاز و اکرام سے نوازا گیا ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانس پر جرمنی کے قبضے کے بعد برطانیہ کے لیے جرمن فوج کے اندر جاسوسی کی۔ 

ان کا نام نور عنایت خان تھا اور جب انہیں گولیوں سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا تو انہوں نے فرانسیسی میں چلا چلا کر 'آزادی! آزادی!' کے نعرے لگائے۔ 
مذکورہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں انگلش ہیریٹیج ٹرسٹ نے لندن میں ان کے نام کی یادگاری تختی لگائی ہے جو یہ عام طور پر مشہور شخصیات کے لیے لگائی جاتی ہے۔

ادارے نے وسطی لندن میں واقع ٹیویٹون سٹریٹ پر اس اپارٹمنٹ کی تزئین و آرائش بھی کی جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ 

گذشتہ ہفتے ٹرسٹ کے ایک وفد نے نور کے اپارٹمنٹ کی بیرونی دیوار پر نیلے رنگ کی تختی نصب کی۔ 

اس کا مقصد یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر سے گزرنے والے افراد اس تختی کو دیکھ کر جان لیں کہ نور برطانوی تاریخ میں ایک اہم شخصیت تھیں اور وہ یہاں رہائش پذیر تھیں نیز لوگ یہ جان سکیں کہ نور نے جو خدمات انجام دیں ان کے سبب ان کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے تھا۔
 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تختی نصب ہونے کے بعد اس اپارٹمنٹ کی قیمت میں نمایاں طور پر اضافے کا امکان ہے۔

نور کے گھر کے باہر نصب تختی لندن میں موجود 950 یادگاری تختیوں میں سے ایک ہے۔  ان تختیوں میں سے 14 فیصد خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

نور کا پورا نام نور النسا عنايت خان تھا۔ وہ 1914 میں پیدا ہوئیں اور محض 30 سال کی عمر میں 1944 میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران نور نے میڈالین کے فرضی نام سے ایک خفیہ ادارے سپیشل آپریشنز ایگزیکٹیو کے لیے بطور ایجنٹ (جاسوس) کام کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نور ماسکو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد بھارت اور والدہ امریکہ سے  تعلق رکھتی تھیں۔

نور نے اپنا بچپن لندن میں گزارا اور بعد ازاں وہ اپنے گھرانے کے ساتھ پیرس منتقل ہو گئی۔ نور کا تعلق بھارت کے معروف مسلمان حکمراں ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھا۔

وہ فرانسیسی زبان میں مقامی باشندوں کی طرح مہارت رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بچوں کے لیے کتابیں لکھ کر کیا۔ جب 1940 میں ہٹلر کی جرمن فوج نے پیرس پر قبضہ کیا تو وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہو کر لندن آ گئیں۔

کتابوں کی تالیف میں سرگرم نور اب برطانوی فوج کے وائرلیس سسٹم پر آ گئیں۔ بعد ازاں وہ سپیشل مشن ٹیم میں شامل ہو گئیں جسے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے قائم کیا تھا۔

انہیں 16 جون 1943 کو فرانس بغرض جاسوسی بھیجا گیا۔ وہ وہاں میڈالین کے نام سے رہیں اور فرانسیسی مزاحمت کاروں کے ساتھ خفیہ طور پر کام کیا۔ اسی دوران وہ چوری چھپے ان وائرلیس پیغامات کو بھی حاصل کرتی رہی جو قابض نازی افواج کی جانب سے نشر کیے جاتے تھے۔ 

وہ ان پیغامات کا متن لندن میں اپنے خفیہ ادارے کو ارسال کر دیتی۔

تاہم تقریباً پانچ ماہ بعد وہ پکڑی گئیں اور نازیوں کی خفیہ پولیس نے انہیں گرفتار کر کے پوچھ گچھ شروع کر دی۔

اس خفیہ پولیس نے 10 ماہ تک نور کو تشدد کا نشانہ بنایا مگر انہوں نے اپنے پاس موجود کسی معلومات کو زبان پر نہ آنے دیا۔

جرمن فوج نے تنگ آ کر انہیں جرمنی کے جنوب میں ڈکاؤ کے عسکری کیمپ منتقل کر دیا۔ 

یہاں نور کو ایک بار پھر 12 ستمبر 1944 کو پوری رات پوچھ گچھ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اگلی صبح تک انہوں نے اپنی خاموشی نہیں توڑی۔ 

یہاں تک کہ ایک اہل کار نے نور کے سر میں گولی مار کر انہیں کو موت کی نیند سلا دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر