افغان مردوں کو ماں کا نام مل گیا

افغانستان میں ماں کا نام بچے کے پیدائش سرٹیفیکیٹ یا کسی اور سرکاری دستاویز پر نہیں لکھا جاتا ہے۔ روایتی افغان معاشرے نے برقعے کے پیچھے ماں کا نام، ماں کے چہرے کی طرح چھپا دیا ہے۔

(اے ایف پی)

افغانستان میں نام کے حوالے سے شناخت کا ہمیشہ ایک بڑا بحران رہا ہے۔

ایک ہی نام کے دو آدمیوں میں فرق ان کے والد کے نام سے کیا جاتا ہے۔

مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک ہی نام والے افراد کے والد بھی ایک جیسے نام رکھتے ہوں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ اس معاملے میں ، سرکاری اور انتظامی ادارے ان لوگوں کی شناخت ان کے دادا کے نام سے کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اردگرد کے لوگوں میں وہ محلے کے نام سے، اپنے بالوں کے رنگ ، جلد اور شکل یا عادتوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

نام کا آخری حصہ (جسے ہم ذات کہتے ہیں) اس ملک میں بہت عام نہیں ہے۔

افغانستان میں ماں کا نام بھی بچے کے پیدائش سرٹیفیکیٹ یا کسی اور سرکاری دستاویز پر نہیں لکھا جاتا ہے۔ روایتی افغان معاشرے نے برقعے کے پیچھے ماں کا نام، ماں کے چہرے کی طرح چھپا دیا ہے۔

پچھلے 20 سالوں میں جب سے افغانستان میں مغربی حمایت یافتہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے ، یہاں صنفی مساوات کے لیے بہت سی کوششیں اور جدوجہد کی جا رہی ہے۔ ان کوششوں میں پیدائشی سرٹیفکیٹ کے اندر بچے کے نام کے ساتھ ماں کا نام شامل کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

حالیہ مہینوں میں یہ کوششیں تیز ہونے کے بعد افغان حکومت نے یکم ستمبر کو اعلان کر دیا کہ وہ پیدائشی سرٹیفکیٹ پر ماں کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔

افغانستان کابینہ کمیٹی نے آبادی کے اندراج کے قانون میں ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت پیدائشی سند پر والدہ کا نام بھی شامل ہو گا۔

نائب صدر محمد سرور دانش کی زیرصدارت کابینہ قانون کمیٹی نے قانون برائے اندراج آبادی کے کچھ آرٹیکلز میں ترمیم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جن میں سے ایک ترمیم جنم پرچی میں والدہ کا نام شامل کرنا ہے۔

ایوان نمائندگان کے کچھ اراکین کی جانب سے پہلے بھی بیان دیا گیا تھا کہ انہوں نے آرٹیکل تھری میں ترمیم کا بل تجویز کیا ہے تاکہ پیدائشی سرٹیفکیٹ پر والدہ کا نام شامل کیا جاسکے۔

افغان قومی شماریات کے دفتر نے مقامی وزارت انصاف کے تعاون سے پاپولیشن رجسٹریشن قانون میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا ہے۔

شماریات دفتر کے سربراہ احمد جاوید رسولی کے مطابق مردم شماری بیورو کو قومی شماریات اور انفارمیشن آفس میں ضم کرنے اور کارکنان برائے خواتین حقوق کی طرف سے پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر والدہ کا نام شامل کرنے کی درخواست کے بعد یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔

افغانستان میں بڑے پیمانے پر حقوق انسانی کارکنوں کی جانب سے 'میرا نام کہاں ہے؟' کے ہیش ٹیگ سے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی گئی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ والدہ کا نام پیدائشی سند اور دیگر سرکاری دستاویزات میں درج ہونا چاہیے۔

افغان پارلیمنٹ ممبر اور خواتین حقوق کے لیے سرگرم کارکن مریم سما نے حکومتی فیصلے پر اس مہم کے اثرات سامنے آنے کے بعد بیان دیا 'ہماری جدوجہد سے فائدہ ہوا سب کو مبارک ہو' خاص طور پر ان لوگوں کو جنہوں نے دن رات اس مقصد کے لیے وقف کیے۔

'سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ترمیم کو قبول کرنے کے لیے اہم ثقافتی تبدیلیاں بھی مدنظر رکھی جائیں۔ اس مقصد کے لیے میں سول سوسائٹی، میڈیا، انسانی حقوق کے کارکنوں خصوصا خواتین اور اس معاشرے کے ہر ذمہ دار شہری کے تعاون کی درخواست کرتی ہوں۔'

کابل میں رہائش پذیر خواتین کے حقوق کی ایک اور کارکن ، زہرہ بہمن نے ٹویٹ کیا 'پیدائشی سند پر ماں کا نام لکھنا آج سے پہلے ایک ممنوع سمجھے جانے والا کام تھا۔ آج تک افغان مرد اپنی والدہ کا نام بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ اگلا اہم اقدام ، میری رائے میں ، ماں کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر بچے کی شہریت ، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حق حاصل کرنا ہے۔ اس امید پر کہ ایک دن میری بیٹیاں میرے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر پیدائشی سند حاصل کریں گی۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر