خیبرپختونخوا میں زیر التوا گھریلو تشدد کا بل اور ہماری غفلت

خواتین سے متعلقہ امور پر بھی خواتین کو لیڈ نہیں دی جاتی۔ جب اسمبلیوں کا یہ حال ہے تو ہم باقی اداروں یا معاشرے کی سطح پر یہ امید کیسے لگا لیں؟

اس بل پر غوروخوضکے لیے ایک سلیکٹ کمیٹی بنائی گئی، لیکن افسوس کہ اس کا سربراہ بھئ  ایک مرد ہے (تصویر: خیبر پختونخوا اسمبلی)

جب بھی کوئی شوہر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے اور کسی بھی قسم کا کوئی تشدد کرتا ہے تو ہمارے ہاں اسے اکثر اوقات ذاتی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں شروع دن سے لڑکی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ گھر کے سکون اور شوہر کی رضامندی اور خوشی کی خاطر تھوڑی بہت مار پیٹ سہنے میں کوئی قباحت نہیں  ہے۔ اس طرح یہ ریت ہمارے معاشرے میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف ٓاواز اٹھانے کی جرات کر بھی لے تو سب سے پہلے اس کے گھر والے اور قریبی رشتہ دار اس کی ہمت یہ کہہ کر توڑ دیتے ہیں کہ ’تمھاری بات سنے گا کون؟‘ اور اگر اس خاتون کی اولاد ہو تو پھر تو مسئلہ مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

لہذا بہت ٓاسان ہوتا ہے کہ اس خاتون کو اپنے بچوں کی خاطر برداشت اور صبر پر ٓامادہ کرتے ہوئے اس بات کے لیے مستقل راضی کر لیا جائے کہ کوئی بات نہیں، تھوڑی بہت مار پیٹ اور تشدد تو تقریباَ ہر عورت کو گھر بچانے کی خاطر سہنا پڑتا ہے۔

اس طرح بھلے گھریلو تشدد کے واقعات میں روز اضافہ ہو، بھلے مار کھانی والی عورتوں کی عزت نفس، ذہنی، جسمانی ونفسیاتی صحت خطرناک حد تک مجروح ہو لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانا روایات اور اقدار سے بغاوت سمجھا جائے گا۔

 اس لیے اس کو تھانے، کورٹ کچہری میں لانا بہت بری بات ہے۔ اس دوران اگر اکا دکا رپورٹس آجائیں، جن میں گھریلو تشدد کے اعداد وشمار ہوں تو اس کو فوری طور پر مسترد کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

اوپر سے جب سے کرونا (کورونا) کی وبا آئی ہے، لوگ مہینوں گھروں میں بند رہے تو اس کا ایک منفی اثر سامنے یہ آیا کہ گھریلو تشدد میں اضافہ ہونے لگا، جس پر اقوام متحدہ کے اداروں سے لے کر ہمارے انسانی حقوق کی وزارتوں نے بھی باقاعدہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ہمارے تین صوبوں میں تو گھریلو تشدد کا قانون موجود ہے اور کسی حد تک خواتین کو قانونی، نفسیاتی اور فوری سہولیات و مدد فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں تاحال بہت کمی بیشی ہے لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں  قانون موجود ہے جس کا سہارا لے کر خواتین اپنے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف ٓاواز اٹھا سکتی ہیں۔

لیکن خیبر پختونخوا کے کیا کہنے۔ پچھلے سات سالوں سے صوبائی اسمبلی میں گھریلو تشدد کا بل توجہ کا منتظر ہے لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اس کا راستہ روکا جا رہا ہے۔

بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے ترقی پسند اور خواتین کے حقوق کی حامی سیاسی جماعتوں سے بھی امید نہیں لگائی جاسکتی۔ جب پہلی مرتبہ گھریلو تشدد کا بل 2012 میں پیش کیا گیا تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی کی صوبے میں مشترکہ حکومت تھی۔  خواتین کے حقوق کی علم بردار یہ دونوں سیاسی جماعتیں بھی خیبر پختونخوا کی خواتین کو اس بل کا تحفہ نہ دے سکیں۔

اس بل پر جمعیت علمائے اسلام کے ایک رہنما نے اعتراضات کیے اور یوں یہ بل سرد خانے میں چلاگیا۔ اگر اس وقت عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی تھوڑی سی سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتیں، اس بل پر بحث کرواتیں اور بل پر اعتراض کرنے والی جماعت سے مطالبہ کرتیں کہ وہ اپنے اعتراضات کی بنیاد پر تجاویز لائیں جس سے اس بل کو بہتر بنایا جاسکے، لیکن اصل مدعا یہ ہوتا کہ یہ عمل رکتا نہیں۔

خیر ہماری امیدیں دوبارہ تب جاگیں جب یہ بل 2016 میں  تحریک انصاف کے دور حکومت میں دوبارہ پیش کیا گیا۔ لیکن اس دفعہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ اب یہاں یہ باب پھر سے مکمل بند ہوگیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہماری اسمبلیوں میں کیا تمام قوانین پاس ہونے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے جاتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو صرف خواتین سے متعلقہ قوانین ہی کیوں؟ یہاں مجھے یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو قوانین نہیں بھیجنے چاہییں، میرا سوال تو یہ ہے کہ صرف خواتین کے متعلق قوانین ہی کیوں؟

کیا ہماری صوبائی اسمبلی میں بننے والے دوسرے قوانین کو اسلامی اقدار سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت نہیں؟ دراصل جب یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا گیا تھا تو مجھے تو خوشی ہوئی تھی کہ چلو اسلامی نظریاتی کونسل اس بل پر اپنی رائے بھی دے دے گی اور اگر اس میں بہتر طریقے سے ہماری خواتین کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنے اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہوگی تو وہ ان کے لیے بہتر متبادل تجویز کردیں گے اور یوں ہمارے صوبے میں ایک ایسا بل آجائے گا جو سب کو قابل قبول ہوگا، لیکن یہاں یکسر مختلف ہوا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے رد کرنے سے یہ معاملہ پھر سرد خانے میں چلا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس بل کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور بل کا مطالبہ کرتی کیونکہ کونسل کے سارے ممبران اسی ملک سے ہیں جن کو بخوبی پتہ ہے کہ ہمارے ہاں گھریلو تشدد ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھریلو تشدد ایک حقیقی اور بہت ہی سنجیدہ  مسئلہ ہے۔ اسی لیے اس کے بعد 2017، 2018 اور پھر ابھی پچھلے سال 2019 میں گھریلو تشدد کے بلز پے در پے پیش ہوئے لیکن کچھ نہیں بدلا۔ ہر مرتبہ اس میں خامیاں نکال کر اعتراضات اٹھائے گئے اور بل کا راستہ روکا گیا۔ کیونکہ آج تک ہمارے صوبے میں اس کے متعلق قانون ہی موجود نہیں تو اگر کوئی عورت اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے گی بھی تو کیسے؟ وہ کون سا دروازہ کھٹکھٹائے گی؟ کس سے مدد مانگے گی؟

 پچھلے سال سے جو بل زیر بحث ہے اس میں یہ پیش رفت ہوئی ہے کہ اس بل پر متعلقہ اداروں اور اسمبلی کے ممبران کے ساتھ ترامیم  پر غوروخوض کے لیے ایک سلیکٹ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ افسوس کا کوئی ایک پہلو ہو تو ہم کہیں لیکن یہاں تو ہر مرحلے پر افسوس اور مایوسی ملتی ہے۔ اس کمیٹی کا سربراہ ایک مرد ہے اور دو تین خواتین ممبرز کے علاوہ اکثریتی ممبران مرد ہیں۔

یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ خواتین سے متعلق امور میں مرد کو سربراہی دی گئی ہو۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ خواتین سے متعلقہ امور پر بھی خواتین کو لیڈ نہیں دی جاتی۔ جب اسمبلیوں کا یہ حال ہے تو ہم باقی اداروں یا معاشرے کی سطح پر یہ امید کیسے لگا لیں کہ وہاں خواتین کو سربراہی ملے گی؟

 جو بل زیر بحث ہے اس کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کی اکثر خواتین ممبران میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں بہت سارے ایسے پہلو ہیں جو عمل درآمد کے دوران انصاف کی فراہمی کے تقاضوں میں رکاوٹیں پیدا کرسکتے ہیں۔ان پہلوؤں پر کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں بات چیت ہوئی ہے اور کچھ ترامیم کو شامل کر لیا گیا ہے لیکن اس بل کو منظور ہونے کے لیے دوبارہ اسمبلی میں جانا ہوگا۔

امید تو ہماری یہ ہے کہ بس اب بہت ہوچکا، اب سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بل کو متفقہ رائے دہی سے پاس کیا جائے تاکہ ہمارے صوبے کی آدھی آبادی کو یہ یقین ہوسکے کہ صوبائی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ہمارے مسائل کا نہ صرف ادراک و احساس ہے بلکہ وہ اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

وگرنہ ہمیں خوب اندازہ ہے کہ جب ہم عورتوں کی حق کی باری آتی ہے تو مذہب کی ٓاڑ لے کر ہمیں چپ کرا دیا جاتا ہے لیکن ہمارے حقوق غضب کرنے کے لیے پھر مذہب سے رہنمائی کی بجائے ہمیں روایات کی سولی پر چڑھایا جاتا ہے۔

آج کا مرد، چاہے وہ گھر میں بیٹھا ہے، محلے یا کسی اسمبلی میں اس کو اپنے ذہن کے نہاں خانے اب کھولنے ہوں گے اور یہ یقین کرنا ہوگا کہ ایک متوازن اور صحت مند زندگی پر عورت کا اتنا ہی حق ہے، جتنا مرد کا ہے۔

ہمارے اردگرد خواتین کے حقوق اور مسائل پر آواز اٹھانے والے لوگ اور ادارے اس اہم مسئلے پر خاموش نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ