'بچوں کو جس طرح گود میں لے کر ان کی پرورش ہوتی ہے، اسی طرح ہم پولو کے گھوڑے پالتے ہیں۔ تین سال تک پالنے کے بعد اسے بعد میں چیک کیا جاتا ہے اور تب ہی شندور پولو فیسٹیول کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے۔'
یہ کہنا تھا چالیس سال سے پولو کھیلنے والے کھلاڑی شہزادہ ریاض الدین کا جو چترال کے مہتر یا شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
چترال اور پولو کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور جہاں بھی پولو کا نام آئے گا تو چترال ذہن میں ضرور آئے گا۔
پولو میں استعمال ہونے والے گھوڑوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے اور ٹریننگ کے بغیر وہ پولو نہیں کھیل سکتے۔
ریاض الدین نے گھوڑوں کے لیے باقاعدہ اصطبل بنایا ہوا تھا جہاں پر وہ مختلف نسل کے گھوڑے رکھتے ہیں۔
ان سے ملنے ہم چترال ان کے گھر پہنچ گئے تو ریاض الدین اپنے ذاتی گھوڑے کی صفائی میں مصروف تھے۔
ریاض الدین نے بتایا کہ پولو کے لیے گھوڑا ایک لاکھ سے لے کر 10 لاکھ تک خریدا جاتا ہے اور اسے پولو کھیلنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کس نسل کے گھوڑے پولو کھیلنے میں استعمال ہوتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ پولو میں زیادہ تر ایسے گھوڑے استعمال ہوتے ہیں جن کو وہ پنجاب یا پشاور سے خریدتے ہیں۔
ریاض الدین نے اپنے گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ گھوڑا انہوں نے پشاور سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدا تھا اور ابھی یہ جوان گھوڑا ہے جو مختلف پولو مقابلوں میں حصہ لے چکا ہے۔
اس کے علاوہ ریاض الدین نے بتایا: 'میرے پاس پانچ دیگر گھوڑے بھی ہیں جن میں سے ایک میرا بیٹا استعمال کرتا ہے اور ایک کو مہمانوں کے لیے رکھا ہے۔ اگر کوئی آئے اور اس پر سواری کرنا چاہتا ہے تو ہم انہیں دے دیتے ہیں۔'
گھوڑے کے ماہانہ خرچے کے حوالے سے ریاض الدین نے بتایا کہ زیادہ تر یہ چوکر اور مکئی وغیرہ کھاتے ہیں اور مہینے کا خرچہ 20 سے 25 ہزار تک ہے، جب کہ بعض لوگ اسے پالنے کے لیے خصوصی بندہ رکھتے ہیں جسے 30 ہزار روپے تک ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا پولو کے لیے گھوڑے پالنا صرف امیروں کا شوق ہے؟ اس کے جواب میں ریاض الدین نے بتایا کہ چترال میں بہت سے سے لوگ گھوڑے پالنے کا شوق رکھتے ہیں جس میں امیر اور غریب دونوں شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا: 'اگر کسی خاندان کے پاس ایک کھیت جتنی زمین ہے اور ان کا بیٹا پولو کا شوق رکھتا ہو تو گھر والے اسے کہتے ہیں کہ 'بیٹا کھیت بیچ دو لیکن گھوڑا خرید کر اپنا شوق پورا کر لو۔'
پولو چترال کیسے آیا؟
'پولو کھیلنا یہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ دیگر علاقوں میں نوابوں اور خوانین کی طرح چترال کے شاہی خاندان کے شہزادوں کو مہتر کہا جاتا ہے۔ صدیوں سے پولو مہتر خاندان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کھیلتے تھے اور انہوں نے ہی اس کھیل کو چترال اور گلگت میں مقبول کیا ہے۔'
ریاض الدین نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد بھی پولو کھیلتے تھے اور پرانے زمانے میں چونکہ گاڑیوں کا رواج نہیں تھا تو ہر کوئی گھوڑا پالتا تھا۔
انھوں نے بتایا: 'اس زمانے میں چترال میں جو بندہ پولو کے لیے گھوڑا رکھتا تھا تو مہتر اس بندے کو گھوڑے کا خرچہ دیتے تھے جبکہ پولو کے کھلاڑی کو زمین بھی مہتر کی جانب سے دی جاتی تھی۔'
چترال کے علاقے شندور میں ہر سال پولو کا میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں گلگت سمیت چترال کے مختلف علاقوں سے پولو ٹیمیں حصہ لیتی ہیں ۔ پولو کی ہر ایک ٹیم میں چھ کھلاڑی ہوتے ہیں۔
ریاض الدین نے بتایا کہ شندور پولو میلے میں پہلے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلا جاتا ہے جس میں سکاؤٹس کی ٹیموں کے علاوہ عام لوگوں کی ٹیمیں بھی ہوتی ہیں۔
'تاریخ کے اوراق میں لکھا گیا ہے کہ پولو گیم دو ہزار سال پرانی ہے لیکن پہلا باقاعدہ ٹورنمنٹ 600 قبل مسیح میں ترک اور فارسی لوگوں کے درمیان کھیلا گیا تھا۔'
انہوں نے مزید کہا: 'اس زمانے میں جنگجو اسے جنگی مشقوں کے لیے استعمال کرتے تھے اور اسے باقاعدہ گیم کا درجہ نہیں دیا گیا تھا۔'
چند تحقیقات کے مطابق انگریز چترال میں پولو متعارف کروانے کی وجہ بنے تھے۔
آج بھی جب شندور میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے تو دنیا بھر سے سیاح اور پولو شائقین ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے شندور کا رخ کرتے ہیں۔