جنسی صلاحیت ختم کرنے کا قانون کتنا موثر ہے؟

اٹھارویں صدی میں امریکہ کی ریاست انڈیانا میں تقریباً 180 قیدیوں کی جنسی صلاحیت ختم کر دی گئی تھی  تاہم 20 ویں صدی میں سرجیکل طریقے سے نا مرد بنانے کے ساتھ ادویات اور انجیکشن کے ذریعے کاسٹریشن  کا طریقہ رائج ہوا جس کو کیمیائی کاسٹریشن کہا جاتا ہے ۔

(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران  خان کے صحافی معید پیرزادہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنسی زیادتی کرنے والوں کو  پھانسی کی سزا کے علاوہ  ان کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کی تجویز کے حوالے سے  ملک بھر میں بحث شروع ہوگئی ہے۔

گذشتہ روز  پاکستان  تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا نے بھی جنسی زیادتی کرنے والے کے لیے یہی سزا تجویز کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اس کے بارے میں قانون سازی بھی کریں گے۔

 کیا باقی دنیا میں ایسا قانون موجود ہے ؟

جنسی زیادتی کرنے والوں کو کاسٹریٹ (نامرد بنانا)  کرنےکا قانون  امریکہ کی کچھ ریاستوں کے علاوہ دنیا کے چند ملکوں میں نافذ ہے جس میں کینیڈا، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، فین لینڈ، سویڈن اور انڈونیشیا  شامل ہیں۔

جرنل آف دی امریکن اکیڈمی آف سائکاٹری اینڈ دا لا میں شائع ایک مقالے میں  لکھا ہے کہ صدیوں پہلے جراحی کے ذریعے خصی کرنا عام تھا  اور  18 ویں صدی میں ان مردوں کی جنسی طاقت جراحی کے ذریعے ختم کر دی جاتی تھی جو زنان خانے کی نگرانی پر مامور کیے جاتے تھے۔

اٹھارویں صدی میں امریکہ کی ریاست انڈیانا میں تقریباً 180 قیدیوں کی جنسی صلاحیت ختم کر دی گئی تھی  تاہم 20 ویں صدی میں سرجیکل طریقے سے نا مرد بنانے کے ساتھ ادویات اور انجیکشن کے ذریعے کاسٹریشن  کا طریقہ رائج ہوا جس کو کیمیائی کاسٹریشن کہا جاتا ہے ۔

اسی مقالے کے مطابق کیمیکل کے ذریعے کاسٹریشن کا پہلا کیس 1944 میں رپورٹ کیا گیا جس میں قیدی کو کچھ ہارمونز دیے گئے تاکہ ان کی جنسی صلاحیت کو ختم کیا جا سکے ۔

امریکہ  کی ریاست کیلی فورنیا پہلی ریاست ہے جہاں پر 1997 میں جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کے لیے کاسٹریشن کا قانون بنایا گیا اور بعد میں آٹھ دیگر ریاستوں میں بھی ایسے بھی قوانین بنائے گئے۔

جرمنی اور ڈنمارک میں سب سے زیادہ مجرموں کی جنسی صلاحیت کو ختم کیا گیا۔ 1934 سے 1944 تک جنسی زیادتی کرنے والے 2800 مجرموں کی جنسی صلاحیت  کو کاسٹریشن کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔

کیلی فورنیا سمیت کچھ ممالک میں جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو زبردستی خصی کر کے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ ان مجرموں کی نگرانی بھی کی جاتی ہے تا کہ دیکھا جا سکے کہ وہ کسی اور طریقے سے جنسی زیادتی میں ملوث ہونے کی کوشش تو نہیں کرتے؟

یہ طریقہ کتنا موثر ہے؟

امریکی مقالے کے مطابق ڈنمارک میں 1929 سے 1973 تک 1100 افراد کی کاسٹریشن کی گئی۔ ڈنمارک میں اس وقت کے ان مجرموں کے فالو اپ میں یہ بات سامنے آگئی تھی کہ جن افراد کی جنسی صلاحیت ختم کی گئی ان میں سے 10 فیصد افراد 15 سال بعد دوبارہ جنسی زیادتی میں ملوث ہو گئے جب کہ جن افراد کی جنسی صلاحیت ختم نہیں کی گئی تھی ان میں سے 36 فیصد افراد دوبارہ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث پائے گئے۔

ناروے میں جنسی زیادتی کے مرتکب 215 افراد جن کی جنسی طاقت ختم کی گئی تھی کے فالو اپ میں یہ بات سامنے آئی  کہ ان میں سے تقریباً تین فیصد افراد دوبارہ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث رہے اور انہوں نے یہ واردات کاسڑیشن کے بعد ایک سے 10 سال کے عرصے میں کی۔

امریکی مقالے میں ان تحقیقی مقالوں جس میں ڈیٹا کو استعمال کیا گیا، کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ اس وقت ایسے انداز میں لکھے گئے جس میں تحقیق کے موجودہ معیار کو شاید نظر انداز کردیا گیا تاہم اس وقت  صرف یہی مقالے موجود ہیں جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔

سرجیکل یاکیمیکل کاسٹریشن کیسے کی جاتی ہے؟

ڈاکٹر شبیر احمد حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے کڈنی سنٹر میں یورالوجی کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ سرجیکل کاسٹریشن یا کیمیکل کاسٹریشن کا تعلق بھی یورالوجی کے شعبے کے ساتھ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر شبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کاسٹریشن دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ انسانی بدن سے خصیوں کو جراحی کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے جب کہ دوسرا طریقہ کیمیکل یا ادویات کے ذریعے کاسٹریشن کا عمل ہے۔

ڈاکٹر شبیر کے مطابق کاسٹریشن چاہے سرجیکل طریقے سے ہو یا کیمیکل طریقے سے، یہ ضروری نہیں ہے کہ اس انسان کی جنسی لذت کے ہارمونز کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔

انھوں نے بتایا کہ کاسٹریشن کرنے سے زیادہ تر مریضوں میں یہ ہوتا ہے کہ ان میں تولیدی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ جنسی لذت کے حوالے سے ان کے عضو خاص میں تناؤ کاسٹریشن کے بعد بھی ممکن ہے لیکن زیادہ تر کیسز میں جنسی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔

اخراجات کے حوالے سے ڈاکٹر شبیر نے بتایا کہ سرکاری ہسپتال میں سرجیکل کاسٹریشن پر 10 ہزار تک خرچہ آتا ہے جبکہ کیمیکل کاسٹریشن ایک مہنگا علاج ہے اور اس کی ایک گولی یا انجیکشن پانچ ہزار تک کا ہے جو مریض کو لمبے عرصے تک استعمال کرنا ہوتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کیا کہتے ہیں؟

شبینہ ایاز پشاور میں عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ سخت سزاؤں سے معاشرے سنورتے نہیں بلکہ بگڑ جاتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کے لیے پہلے سے سخت قوانین موجود ہیں جن پر عمل درآمد اور امیر غریب کا فرق ختم اور فیصلے انصاف پر کر کے جنسی زیادتی کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

شبینہ کے مطابق کاسٹریشن کا قانون بن بھی جائے تو اس پر عمل درآمد  مشکل ہوگا کیونکہ سب سے پہلے پولیس اور عدالتوں کو فیصلوں میں تفریق ختم کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ اس قانون سے جنسی زیادتی کے مرتکب غریب افراد تو نامرد ہو جائیں گے جبکہ پیسے والے بچ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان