روتھ بیڈرگنزبرگ:خواتین کی ترقی اور حقوق کی علمبردار

موت سے پہلے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ سپریم کورٹ میں ان کی نشست نومبر کے صدارتی انتخاب کے بعد تک خالی رہنے دی جائے۔

جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے روتھ بیڈرگنزبرگ کو سپریم کورٹ کے لیے نامزد کیا تو وہ ان کے کیریئر سے اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے انہیں اتنا زیادہ خراج تحسین پیش کیا جو ان کے خیال میں ممکن تھا۔

انیس سو ترانوے میں روزگارڈن میں ہونے والی تقریب سے خطاب میں کلنٹن نے کہا: ’ان کے کام کو سراہنے والے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ خواتین کی تحریک میں ان کا وہی مقام ہے جو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تھرگڈمارشل کا افریقی نژاد امریکی شہریوں کے حقوق کی تحریک میں تھا۔ میرا خیال ہےکہ کسی امریکی وکیل کی اس سے بڑھ کر تعریف نہیں کی جا سکتی۔‘

خواتین کی ترقی اور حقوق کی علمبردار گنزبرگ جمعے کو چل بسیں۔

وہ لبلبے کے سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں۔ موت سے پہلے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ سپریم کورٹ میں ان کی نشست نومبر کے صدارتی انتخاب کے بعد تک خالی رہنے دی جائے۔

انہوں نے اپنے پیچھے ایسا ترکہ چھوڑا ہے جسے رپبلکن اور ڈیموکریٹک حکام نے فوری طور پر سراہا ہے۔ آنجہانی امریکی جج کی عمر 87 برس تھی۔

انہوں نے کئی برس تک صحت کے سنگین مسائل کا مقابلہ کیا  لیکن مثالی طور پر ہسپتال کے بستر سے کام کرتی رہیں یا جلد ہی ہائی کورٹ میں کام کے لیے واپس آ گئیں۔

ان کی ذہانت اور کام کی اخلاقیات کی بدولت انہیں جج اور وکیل دونوں حیثیتوں میں ساتھیوں سے عزت ملی۔

جب انہیں امریکی ٹائم میگزین کی جانب سے 100 بااثر ترین افراد میں سے ایک نامز کیا گیا تو کنزرویٹو جج انٹونن سکالیا نے لکھا: ’روتھ بیڈرگنزبرگ قانون کے شعبے میں دو ممتاز کیریئرز کی مالک ہیں جن میں سے کوئی بھی انہیں ٹائم میگزین کی بااثرترین 100 شخصیات میں شامل کروا سکتا ہے۔ سکالیا 2016 میں وفات پا گئے تھے۔

گنزبرگ کی وفات کے بعد سکالیا کی جانب سے ان کے لیے خراج یقیناً کسی ایک ریپبلکن کا نہیں۔ بعض اوقات کسی کے مخالفین کی جانب سے اس کے لیے کی ہوئی بات اس سے زیادہ زور دار ہوتی ہے جو وہ اپنے اتحادیوں کے بارے میں کہتے ہیں۔

امریکی سینیٹ میں اکثریتی رہنما مچ میکونل نے اپنے بیان میں کہا:’جسٹس گنزبرگ نے یکے بعد دیگر ذاتی اورپیشہ ورانہ مسائل پر قابو پایا۔ وہ نیویارک شہر کے عام سے علاقے بروکلن میں پرورش پا کر ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی نشست اور ہماری تاریخ کے صفحات تک پہنچیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جسٹس گنزبرگ قانون کے پیشے اور سپریم کورٹ میں 27 سال تک خدمت سے پوری طرح وابستہ تھیں۔ ان کی ذہانت اور عزم کی بدولت انہیں پوری قانونی دنیا اور درحقیقت پوری قوم میں عزت اور ستائش ملی اور اب وہ ان کے خاندان، دوستوں اور رفقائے کار کے ساتھ غم میں شریک ہیں۔‘

جب گنزبرگ جوان اور قانون کے شعبے کو پیشہ بنانے کا ارادہ رکھتی تھیں تب ان کی مشکلات کا آغاز ہوا۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں جارج ٹاؤن لا سکول میں ایک تقریب کے دوران ہارورڈ لا سکول میں اپنے ساتھ موجود پانچ سو مرد طلبہ میں متعدد طالبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: 'ہم محسوس کرتے ہیں کہ تمام نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔'

ہارورڈ میں ایک عشایئے کے موقعے پر ایک اعلیٰ عہدے دار نے طالبات سے پوچھا: 'آپ ایک مرد کی جگہ لیتے ہوئے ہارورڈ لا سکول میں کیوں ہیں؟'

گنزبرگ نے اپنا تبادلہ کولمبیا لا سکول میں کروا لیا جہاں انہوں سے انہوں نے گریجویشن کی اور کلاس میں پہلے نمبر پر آئیں۔

تاہم انہوں نے قانون کے شعبے میں جس مستقبل کے بارے میں سوچا تھا وہ فوری طور شروع نہ ہوا۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی تقریب میں انہوں نے کہا: 'لافرمز ایک خاتون کو آزمانے پر رضامند تھیں۔ ابھی تک ایک ماں کو آزمانے پر رضامند نہیں تھیں۔' اس وقت گنزبرگ ایک چار سالہ بیٹی کی ماں تھیں۔

انہوں نے اس طرح کے تجربات کو خواتین کے حقوق اور مساوات کے لیے کھل کر بات کرنے والی وکیل بننے کے لیے استعمال کیا۔

جدوجہد کرنے ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ ناتھن بیدر کی بیٹی کے طور پر پلی بڑھی تھیں جو اپنے خاندان کے ساتھ کم عمری میں ترک وطن کر کے نیویارک آ گئے تھے۔ گنزبرگ کی والدہ کا خاندان بھی ترک وطن کر کے امریکہ آیا تھا جس کے صرف چار ماہ بعد گنزبرگ کی والدہ پیدا ہوئیں۔ ہاورڈ اور کولمبیا یونیورسٹیوں پڑھنے والے طلبہ کے خاندانوں کی طرح گنزبرگ کا خاندان دولت مند نہیں تھا۔ ان کے خاندان نے پرچون کی چھوٹی دکانیں چلائیں اور مشکل سے گزر بسر کی۔

بیڈر خاندان بروکلن کے مضافات میں فلیٹ بش کے علاقے میں مقیم ہے۔ گنزبرگ اپنی موت تک علاقے کے مخصوص لہجے میں بات کرتی تھیں۔ ان کی زندگی میں کچھ مشکل وقت بھی آیا جس میں ان کی چھ سالہ بہن کی گردن توڑ بخارسے موت شامل ہے۔ اس وقت ان کی عمر 14 ماہ تھی۔

گنزبرگ کی والدہ سیلیابیڈر اپنی بیٹی کی ہائی سکول سے گریجویشن سے ایک دن پہلے سرطان کے مرض کی وجہ سے چل بسی تھیں۔ گنزبرگ نے 2009 میں امریکی ٹیلی ویژن سی۔ سپین (C-SPAN) کو بتایا کہ تھا کہ ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ 'وہ پڑھیں اور اچھے گریڈ لینے کے لیے محنت کریں۔ اس لیے میں نے یہی کیا۔'

سیلیابیڈر ایک ہونہار طالبہ تھیں لیکن ان کے والدین نے انہیں کالج نہیں بھیجا بلکہ اس کی بجائے انہوں نے کورنیل یونیورسٹی میں پڑھنے والے اپنے بھائی کی مالی مدد کے لیے کام کیا۔

مستقبل میں سپریم کورٹ کی جج بننے والی گنزبرگ نے کئی سال بعد  روزگارڈن میں منعقدہ اسی تقریب میں جب اپنی والدہ کو خراج عقیدت پیش کیا تو صدر بل کلنٹن رو پڑے۔ گنزبرگ نے کہا: 'میری دعا ہے کہ میں وہ سب کچھ بنوں جو وہ  زندہ رہنے کی صورت میں اس دور میں بنتیں جہاں خواتین خواہش کر سکتی اور حاصل کر سکتی ہیں اور بیٹیوں کو بھی اتنا ہی عزیز رکھا جاتا ہے جتنا بیٹوں کو۔'

اپنی والدہ کے برعکس گنزبرگ نے کورنیل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی جہاں ان کی ملاقات اپنے خاوند مارٹن گنزبرگ سے ہوئی۔ کالج کے طلبہ کی حیثیت کی جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو روتھ بیڈرگنزبرگ کی عمر17 سال تھی۔ انہوں نے گریجویشن کرنے کے بعد شادی کر لی۔

'آن دا بیسس آف سیکس'نامی فلم میں ان کی شادی کے اولین برسوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان برسوں میں ان کے خاوند گنزبرگ کو اس وقت مایوسی ہوئی جب انہوں نے رٹگرز یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر کی ملازمت شروع کی کیونکہ وہ سمجھتی تھیں یہ ملازمت ان کے لیے نہیں ہے اور نہ انہوں  اس کی خواہش کی تھی۔ فلم کے مطابق گنزبرگ نے نے اپنے خاوند کو دلاسا دیا۔

ایک بار انہوں نے اپنے خاوند، جن سے ان کے دوبچے ہیں، کے بارے میں کہا: 'وہ واحد لڑکے تھے جن سے میری کبھی ملاقات ہوئی۔ جنہیں احساس تھا کہ میرے پاس دماغ ہے۔' 2009 میں سی۔ سپین سے خوشگوار انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاوند گھر میں 'بہترین شیف'ہیں کیونکہ جب ان کے بچے چھوٹے تھے تو وہ انہیں (روتھ گنزبرگ) کو کچن سے باہرلے گئے۔

اسی انٹرویومیں انہوں نے ہائی کورٹ میں باقاعدگی سے ہونے والے لنچز کے بارے میں بتایا جو ججوں کی بیویاں یا خاوند تیار کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا: 'ہو سکتا ہے کہ میں متعصب ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند کا تیار کیا ہوا کھانا بہترین ہوتا ہے۔'

روتھ بیڈرگنزبرگ کے خاوند مارٹن گنزبرگ ٹیکس کے ایک قابل اور کامیاب وکیل تھے لیکن وہ 1980 میں اس وقت اپنا پرکشش کیریئر اس وقت چھوڑ کر بیوی کے ساتھ واشنگٹن منتقل ہو گئے جب اس وقت کے صدر جمی کارٹر نے روتھ گنزبرگ کو وفاقی عدالت میں جج نامزد کیا۔ ان کے  خاوند جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ٹیکس لا پڑھایا اور کئی برس تک پس منظر میں رہ کر ڈیموکریٹ رہنماؤں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ روتھ گنزبرگ کو پارٹی کی آئندہ صدر کے لیے شارٹ لسٹ کریں جن کے پاس ہائی کورٹ کی آسامی پر کرنے کا  موقع ہے۔

جوڑے نے کئی دہائیوں تک شادی شدہ زندگی گزاری اور بیماری اور کیریئر کے لیے جدوجہد میں اکٹھے رہے۔ 1960 میں ایک موقعے پر سپریم کورٹ کے جج فیلس فرینکفرٹر نے کلرک شپ کے لیے روتھ گنزبرگ کی درخواست مسترد کر دی کیونکہ وہ ایک خاتون تھیں۔ ایک اور موقعے پر رٹگرز یونیورسٹی نے ان کی خدمات حاصل کیں اور انہیں بتایا کہ انہیں مرد پروفیسروں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جائے گی کیونکہ ان کے خاوند اچھی ملازمت ملازمت کرتے ہیں اور ان کی تنخواہ اچھی ہے۔

ایک پھر یہ ایسے پیشہ ورانہ تجربات تھے جنہوں نے دنیا کے بارے میں ان کے ان خیالات اور فیصلوں کی تشکیل کی جو آخر میں انہوں نے ہائی کورٹ میں لکھے۔

یہی تجربات تھے وہ وجوہات  تھے جن کی بنا پر انہوں نے 1972 میں امریکن سول لبریشن یونین میں ویمن رائٹس پروجیکٹ کی بنیاد رکھی اور اگلے سال گروپ کی جنرل کونسل بن گئیں۔ ناقابل یقین طور پر یہ منصوبہ 1974 تک مساوی حقوق کے 300 سے زیادہ کیسوں کا حصہ بن گیا۔ کئی سال بعد 2017 میں روتھ گنزبرگ نے اس منصوبے کو'پیشرفت کی بڑی علامت'قرار دیا۔ سکول کے وہ بچے جو ہر ہفتے ان سے ملاقات کے لیے ان کے عدالتی دفتر میں آتے اکثر سوال کرتے کہ کیا وہ ہمیشہ سے سپریم کورٹ کی جج بننا چاہتی تھیں۔ 'اپنی طویل زندگی میں، میں نے عظیم تبدیلیاں دیکھی ہیں۔'

گنزبرگ کے ہائی کورٹ کے ساتھی انہیں ایک خوش مزاج قرار دیتے ہیں جنہوں اچھائی کا جواب اچھائی میں دیا۔ گنزبرگ نے 2016 میں اخبار نیویارک ٹائمز میں رائے کے اظہار والے حصے میں لکھا: 'جب کسی جج کو پورا یقین ہو کہ اکثریت نے بات کو غلط طور پر لیا ہے وہ آزاد ہیں کہ اس کی مخالفت میں ایسا کہیں۔ جب مجھے اہم لگتا ہے میں اس حق کا فائدہ اٹھاتی ہوں اور میرے ساتھی جج بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ