امريکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشير جنرل (ر) ميک ماسٹر نے الزام عائد کیا ہے کہ ’پاکستان نے طالبان کو زندہ رکھا ہوا ہے اور حقانی نيٹ ورک طالبان اور لشکر طیبہ کے درميان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔‘
جنرل (ر) ميک ماسٹر امريکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشير، امريکی فوج ميں اپنے 34 سالہ تجربے اور خارجی پاليسی پر عبور رکھنےکی وجہ سے ’اولين جنگجو مفکر‘ کے حوالے سے جانے جاتے ہيں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے نے افغان امن معاہدے کے حوالے سے خطے ميں پاکستان کے کردار پر جنرل (ر) ميک ماسٹر سے سوال کيا جس پر ان کا کہنا تھا: ’خطے ميں پاکستان کے متحرک رہنے کی وجہ بھارت ہے۔ پاکستانی فوج کو ہر چيز کے پيچھے بھارت نظر آتا ہے اور افغانستان ميں ان کے بيشتر اقدامات کی وجہ بھی يہی ہے۔‘
پاکستان کی خارجہ پاليسی کو اپنی تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا: ’1948 سے غيرقانونی مسلح گروہ پاکستان کی خارجہ پاليسی کا حصہ رہے ہيں جس کا سب سے بڑا نقصان خود پاکستان کی عوام نے اٹھايا ہے۔‘
2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کی مثال ديتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’تحريک طالبان پاکستان نے جب سکول پر حملہ کيا تو اميد تھی کہ پاکستان اپنی خارجہ پاليسی پر نظر ثانی کرے گا مگر افسوس ايسا نہ ہوا۔ اب وقت آ گيا ہے کہ افواج پاکستان اور آئی ايس آئی دہشت گردوں کی حمايت کرنا بند کر ديں۔ اب ہميں پاکستان پر زور ڈالنا ہو گا کہ وہ اپنی سمت منتخب کرے۔‘
جنرل (ر) ميک ماسٹر کی اس تنقيد پر جنرل (ر) امجد شعيب نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’امريکہ پاکستان افغان تعلقات کو بھارت کی آنکھ سے ديکھتا ہے کيونکہ اس ميں ان کا ذاتی مفاد پوشيدہ ہے اور وہ بھارت کو چين کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ امريکہ اپنے سياسی مفاد کے سامنے سب کو کيڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔'
جنرل شعيب نے يہ بھی کہا: ’پاکستان کی مدد کے بغير امريکہ افغانستان ميں قدم نہيں رکھ سکتا تھا۔ پاکستان نے اس کو انٹيليجنس، لاجسٹکس، مواصلاتی سپورٹ اورائيرفيلڈ کی سہولييات مہيا کيں۔ امريکہ نے افغانستان ميں پہلے روس اور پھر القاعدہ سے جنگ لڑنے ميں پاکستان کا استعمال کيا اورپھر بھارت کو افغانستان ميں آباد کر ديا۔‘
جنرل (ر) ميک ماسٹر کے اس بيان پر واشنگٹن ڈی سی میں مقیم سینیئر صحافی انوراقبال نے تجزيہ کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان کے حقانی نيٹ ورک سے تعلقات آج بھی ہيں مگر کيا اس کا فائدہ امريکہ نے نہيں اٹھايا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان ميں 19 سال رہنے کے باوجود امريکہ کچھ نہ کرسکا کيونکہ افغانستان ميں صرف طالبان کا مسئلہ نہيں، اس کے لیے امريکہ کو افغانستان کی تاريخ کو سمجھنا ہو گا۔‘
جنرل (ر) ميک ماسٹر نے انڈيپنڈنٹ سے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا: ’پاکستان کی آرمی اور آئی ايس آئی کو اپنا رويہ بدلنا ہو گا ورنہ پاکستان شمالی کوريا کی طرح ايک ’اچھوت رياست‘ بن کر رہ جائے گا جس کو چين کےعلاوہ خطے ميں کسی کی حمائيت حاصل نہيں ہوگی اور يہ پاکستان کے لیے فائدہ مند نہيں۔‘
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پاليسی تاريخی اعتبارسے متنازع رہی ہے۔ جس کی کئی وجوہات ميں سے دو بڑی وجوہات افغانستان کا طويل عرصہ تک عالم جنگ ميں رہنا اور افغان پناہ گزینوں کی پاکستان ميں ايک لمبے عرصہ تک موجودگی ہے۔
پاکستان کے وزير خارجہ شاہ محمود قريشی کے مطابق پاکستان نے افغان خارجی امور کو بہتر بنانے ميں ہميشہ کليدی کردار ادا کيا ہے۔
انہوں نے اگست ميں افغان طالبان کے وفد سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات ميں آئی ايس آئی کے سربراہ ليفٹننٹ جنرل فيض حميد بھی موجود تھے۔
وفد کی سربراہی افغان طالبان کے سياسی امور کے سربراہ ملا برادر نے کی تھی۔ اس ملاقات ميں افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابين امن معاہدے کی پيش رفت پر بات ہوئی تھی۔ اس ملاقات سے پہلے امريکی وزیر خارجہ مائيک پامپيو اور پاکستان کے وزير خارجہ شاہ محمود قريشی کے درميان اس امن معاہدے ميں پاکستان کے اہم کردار اور خطے کے استحکام کے بارے ميں گفتگو ہو چکی تھی۔
پاکستان اس امن معاہدے ميں اپنے کردار سے مطمئن اور پر اميد ہے۔