ڈین جونز اپنی ریڈ بک بھی ساتھ لے گئے

ہنس مکھ اور بذلہ سنج ڈین جونز پاکستانی کرکٹ کے خیرخواہ تھے، اس لیے پاکستان کرکٹ کے لیے ان کی کوششیں ہمیشہ قابل تحسین رہیں گی۔

ڈین جونز اسلام آباد یونائٹڈ کے کوچ رہے (اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ کو بہت قریب سے دیکھنے والے غیر ملکی کرکٹروں میں ڈین جونز ہمیشہ ممتاز حیثیت کے حامل رہیں گے۔

گذشتہ روز دل کے جان لیوا دورے میں ان کی بے وقت موت نے دنیائے کرکٹ کو افسردہ کر دیا ہے۔

وہ انڈین پریمئیر لیگ کے رواں سیزن میں ایک ٹی وی چینل پر تبصرہ کے لیے ممبئی میں مقیم تھے جہاں ہوٹل میں دل کی تکلیف ہوئی اور کچھ ہی دیر میں وہ 59 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔

اپنے عروج کے دور میں ڈین جونز محدود اووروں کی کرکٹ کے نمبر ایک بلے باز تھے۔ 80 کے عشرے کے اواخر میں جب سلیم ملک ابھر کر سامنے آئے تو عمران خان نے کہا کہ تھا کہ وہ ایک اور ڈین جونز بن سکتے ہیں۔

جونز غیر روایتی انداز میں کھیلنے والے جارحانہ بلے باز تھے۔ وہ ان معدودے چند آسٹریلیا کرکٹروں میں شامل تھے سپنروں کو بھی کمال مہارت سے کھیلا کرتے تھے۔ پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ان کی جارحانہ سینچری اور1986 میں بھارت کے دورے پر ٹائی ہو جانے والے چنائ ٹیسٹ میں ان کی ڈبل سنچری ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

اسی طرح ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف دونوں اننگز میں سنچریاں ان کی زبردست بلے بازی کا مظہر تھیں۔

انسانیت دوستی

ڈین جونز شوخ مزاج کے بے باک انسان تھے اور اکثر اپنے کہے گئے الفاظ کے باعث تنقید کا نشانہ بنتے تھے۔ لیکن اندر سے وہ ایک معصوم اور ہمدرد انسان تھے۔ دو سال قبل جب آصف علی کی بیٹی بیمار ہوئی تو وہ پریس کانفرنس میں رو پڑے تھے۔ انہوں نےاپنے الفاظ سے سب کو آبدیدہ کر دیا تھا کہ ’آصف کی بیٹی کی بیماری کے بعد کچھ بولنے کو دل نہیں چاہتا وہ کانفرنس بولے بغیر ختم کر گئے تھے۔‘ وہ آصف علی کی بیٹی کی لیے فنڈز بھی جمع کرنے میں متحرک رہے۔

انہیں اپنے تمام ساتھی کھلاڑیوں سے بچوں کی طرح پیار تھا۔ بہت سے نوجوان کرکٹر ان کی خاص توجہ سے نکھر گئے جن میں شاداب خان حسین طلعت رومان رئیس نمایاں ہیں۔

بے باک تبصرے

ڈین جونز اپنے کھیل کی طرح تبصرہ کرنے میں بھی جارحانہ الفاظ استعمال کرجاتے تھے 2006 میں ایک میچ کے دوران جنوبی افریقہ کے ہاشم آملا کے لیے ’دہشت گرد‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پر وہ دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بن گئے تھے، حالانکہ انہوں نے یہ بات مذاق میں کی تھی اور بعد میں معذرت بھی کر لی تھی، لیکن اس ایک لفظ کے باعث ان کا نشریاتی ادارے سے معاہدہ ختم کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کرکٹ بورڈ سے دلبرداشتہ

پروفیسر ڈینو کے نام سے مشہور ڈین جونز ہمیشہ کوچنگ کے خواہشمند رہے۔ پاکستان ٹیم کے لیے کوچنگ کی درخواست بھی دی اور ان کا انٹرویو بھی ہوا، تاہم وہ منتخب نہ ہو سکے۔ جب پاکستان کرکٹ میں ان کے خیر خواہ ان کو یقین دہانی کرانے کے باوجود منتخب نہیں کرا سکے تو وہ دلبرداشتہ ہو گئے تھے اور عہد کر لیا تھا کہ اب کبھی درخواست نہیں دیں گے۔

ریڈبک سے کوچنگ

پاکستان سپر لیگ میں وہ ابتدا سے ہی بہت سرگرم عمل تھے۔ کئی غیر ملکی کھلاڑی ان کی کوششوں کے باعث پی ایس ایل میں شامل ہوئے۔

جونز اسلام آباد یونائٹڈ کے پہلے کوچ بنے اور پہلے سال ہی چھا گئے۔ اسلام آباد کی کوچنگ کرتے ہوئے وہ ہمیشہ ایک ریڈ بک ساتھ رکھتے تھے اور میچ کے دوران کچھ درج کرتے رہتے تھے۔ ان کی یہ ریڈبک بہت مشہور ہو گئی تھی اور جب اسلام آباد یونائٹڈ نے پہلی دفعہ لیگ جیتی تو ازراہ مذاق انہوں نے جیت کا کریڈٹ ریڈ بک کودیا تھا۔

اس ریڈ بک سے ان کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں کچھ لوگ اس کو جیت کا مینوئل کہتے تھے۔

جب وہ کراچی کنگز کے کوچ بنے تو پھر ریڈ بک نظر نہیں آئی، غالباً وہ اسے اسلام آباد چھوڑ آئے تھے۔

پاکستان میں بے خوف سفر

ماضی میں پی ایس ایل کے جب کچھ میچ اور پھر آخری سیزن کے تمام میچوں کے پاکستان میں انعقاد کا اعلان ہوا تو وہ سب سے پہلےجانے کی ہامی بھرنے والے تھے۔ وہ بے خوف و خطر پاکستان کا سفر کرتے تھے اور پاکستان میں کرکٹ کی مکمل بحالی کے متمنی تھے۔ وہ آسٹریلین بورڈ کو کئی بار کہہ چکے تھے کہ پاکستان اتنا ہی محفوظ ملک ہے جتنا کوئی اور، اس لیے بورڈ کو ٹیم پاکستان بھیجنی چاہیے۔

1987 کا عالمی کپ

 بر صغیر میں ہونے والے پہلے ورلڈ کپ میں وہ فاتح آسٹریلین ٹیم کی بیٹنگ کے اہم ستون تھے۔ ڈیوڈ بون اور جیف مارش کے ساتھ وہ بھی فتح کی کہانی کے اہم کردار تھے۔

کرکٹ کمنٹری

ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کمنٹری کی دنیا میں آ گئے تھے ان کے ماہرانہ تبصرے اور دلچسپ فقرے کمنٹری میں جان ڈال دیا کرتے تھے۔ وہ چونکہ نوجوان کھلاڑیوں میں گھل مل جاتے تھے اس لیے کمنٹری کے دوران کھلاڑیوں سے متعلق دلچسپ واقعات سناکر مزاح پیدا کرنے کوشش کرتے تھے۔

ہاشم آملا پر ان کے ریمارکس دراصل ایک مزاح پیدا کرنے کی کوشش تھی لیکن عالمی حالات کے تناظر میں وہ قابل مذمت ہو گئے تھے۔

ایک کامیاب بلے باز ہونے کے باوجود جب 1994 میں وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے وداع ہوئے تو صرف 33 سال کے تھے لیکن اس کو بھی وہ کھیلنے کے لیے زیادہ عمر سمجھتے تھے، حالانکہ جب کوچ بنے تو اپنی کوچنگ میں 42 برس کے مصباح الحق کو وہ کھلاتے رہے اورتعریفیں بھی کرتے رہے۔

مصباح الحق کے ساتھ ان کی بہت زیادہ ذہنی ہم آہنگی تھی۔ اسلام آباد یونائٹڈ کی پہلے ایڈیشن میں کامیابی دونوں کی ہم آہنگی ہی کا نتیجہ تھی۔ تاہم ان کو اس وقت صدمہ پہنچا جب پاکستان ٹیم کی کوچنگ کے لیے ان کے شاگرد مصباح الحق کو ان پر ترجیح دے دی گئی۔

ڈینو اب دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی باتیں ان کا انداز ان کے جملے اور کرکٹ پر ماہرانہ رائے ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ وہ کرکٹ میں میرٹ کے قائل تھے اور لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے۔

ڈین جونز پاکستان کرکٹ کے ہمیشہ خیر خواہ رہے اور دنیا کو اس بات پر آمادہ کرتے رہے کہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ پاکستان کرکٹ کے لیے ان کی کوششیں ہمیشہ قابل تحسین رہیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ