کلبھوشن کیس: 'بھارت کو کافی موقعے دیے مگر وہ فائدہ نہیں اٹھا رہا'

'کیا عدالت اپنے طور پر کلبھوشن یادو کے لیے وکیل مقرر کر سکتی ہے؟' اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس حوالے سے معاونت طلب کرلی۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا (اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو وکیل فراہم کرنے کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے بھارت کو کافی موقعے فراہم کر دیے لیکن وہ اس کا فائدہ نہیں اٹھا رہے۔‘

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں کلبھوشن یادو کو وکیل فراہم کرنے سے متعلق وزارت قانون کی درخواست کی سماعت منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے سماعت کے آغاز پر عدالت کو بتایا کہ 'سات ستمبر کو کلبھوشن کیس میں بھارت نے پاکستان کو جواب بھیجا، جس میں چار اعتراضات اٹھائے گئے جوکہ بے بنیاد ہیں۔'

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 'بھارت نے آرڈیننس، قونصلر رسائی اور بھارتی وکیل کی اجازت نہ دینے پر اعتراضات اٹھائے۔ عدالتی حکم پر وزارت خارجہ نے بھارتی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا، تاہم بھارت نے اپنے جواب میں اپنا پہلا موقف قائم رکھا اور ایک بار پھر عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔'

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ 'لندن میں پریکٹس کرنے والے کوئینز کونسل کو بطور وکیل پیش کرنے کے اجازت مانگی گئی، لیکن آرڈیننس کے تحت کلبھوشن خود، قونصلر یا نمائندے کے ذریعے کارروائی کا حصہ بن سکتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'جب بھارت اور کلبھوشن نے وکیل کے لیے درخواست نہ دی تو سیکرٹری قانون نے قانونی تقاضہ پورا کیا اور پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے آرڈیننس پاس کیا جسے 120 دن کے لیے مزید توسیع دے دی گئی ہے۔ کلبھوشن کے انکار کے بعد کوئی بھی ان کی اجازت کے بغیر ان کی نمائندگی نہیں کرسکتا، لیکن عدالت ان کے لیے عدالتی نمائندہ مقرر کر سکتی ہے۔'

اس موقعے پر عدالت عالیہ نے سوال اٹھایا کہ 'کیا یہ عدالت اپنے طور پر کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کر سکتی ہے؟' عدالت نے عدالتی معاون حامد خان کو ہدایت کی کہ 'اس نکتے پر بھی عدالت کی معاونت کی جائے کہ بھارت یا کلبھوشن کی مرضی کے بغیر وکیل مقرر کرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟ کیا یہ موثر نظر ثانی کے قانونی تقاضے پورے کرے گا؟'

عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ 'عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرانا مقصد ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلاکیس نہیں ہو گا، اسی طرح کے کیسز پر فیصلے موجود ہوں گے۔'

ساتھ ہی چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 'کیا گذشتہ سماعت کے حکم نامے کی کاپی کلبھوشن یادو کو دے دی گئی تھی؟' اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 'عدالتی حکم نامے کی کاپی فراہم کر دی گئی تھی لیکن بھارت کو چاہیے کہ آ کر درخواست دے اور قانونی طریقے سے دستاویزات حاصل کرے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے ساتھ ہی عدالت نے نو نومبر تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'اگر بھارت اور کلبھوشن وکیل نہیں کرتے تو کیس کیسے آگے بڑھائیں؟کیا اپنے طور پر کلبھوشن کو وکیل دینے سے عالمی عدالت کے فیصلے پر موثر عملدرآمد ہو گا؟ کیونکہ کلبھوشن یادو اگر عدالت سے رجوع کریں گے تو ہی ہم ان کے حق زندگی کے تحفظ کا معاملہ دیکھ سکیں گے۔'

اس حوالے سے اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون حامد خان کو دلائل اور بین الاقوامی عدالتی حوالے پیش کرنے کی ہدایت بھی دی گئی۔

واضح رہے کہ عدالت نے اس کیس میں سینیئر وکلا عابد حسن منٹو اور مخدوم علی خان کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا تھا، لیکن دونوں وکلا نے عدالتی معاونت سے معذرت کر لی۔

عابد حسن منٹو نے خراب صحت اور مخدوم علی خان نے پیشہ ورانہ وجوہات کی بنیاد پر پیش ہونے سے معذرت کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان