ایک اور زینب چارسدہ میں ریپ کے بعد قتل ہوگئی

پڑانگ تحصیل کونسل کے رکن تاج ولی شاہ کے مطابق ڈھائی سالہ بچی کے جسم کو چھریوں سے کاٹا گیا تھا۔ اس واقعے پر نہ صرف بچی کاخاندان بلکہ پورا گاؤں نہایت صدمے میں ہے۔

پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں بچوں سے ریپ کے واقعات  میں اضافہ ہوگیا ہے (تصویر: پکسابے)

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے پڑانگ میں سات اکتوبر کو ریپ کے بعد ڈھائی سالہ بچی زینب کو قتل کرنے والے ملزمان کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے، دوسری جانب سوشل میڈیا پر ’جسٹس فار زینب‘ کے پیش ٹیگ کے ساتھ لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق: ’چھ اکتوبر کو بچی گھر کے سامنے کھیلتے وقت لاپتہ ہو گئی تھی جس کے بعد شام ساڑھے آٹھ بجے اغوا کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔ سات اکتوبر کو دوپہر ایک بجے کے قریب پولیس نے بچی کی تشدد زدہ لاش کھیتوں سے برآمد کی، جس کے بعد بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے لیے نمونے پشاور کے ہسپتال بھجوائے گئے۔‘

 ہسپتال ذرائع نے پولیس کو بتایا کہ ’بچی کے ساتھ 18 گھنٹے قبل ریپ کیا گیا تھا۔‘

دوسری جانب پڑانگ تحصیل کونسل کے رکن تاج ولی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب وہ کھیتوں سے لاش اٹھانے گئے تو بچی کے بدن پر کپڑے نہیں تھے اور اس کے جسم کو چھریوں سے کاٹا گیا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے پر نہ صرف بچی کاخاندان بلکہ پورا گاؤں نہایت صدمے میں ہے۔ بچی ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور ان کے والد کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ زینب آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے آخری نمبر پر تھی۔‘

تاج ولی شاہ نے مزید بتایا کہ پولیس نے بروقت کارروائی کی اور اگر اسی طرح کام کرتے رہے تو بہت جلد ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں بچوں سے ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آئے روز بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں جبکہ اس حوالے سے ’زینب الرٹ بل‘ بھی پاس ہو چکا ہے۔

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے بھی ریپ کے مجرموں کو خصی کرنے کی سزا تجویز کی، لیکن پھر بھی ایسے واقعات کی روک تھام میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ماہر نفسیات پلوشہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صرف مذمتی یا جذباتی بیانات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جرائم کی روک تھام کے لیے گراس روٹ لیول پر ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد اس پر حکومت کی مدد سے ایک یونیفارم پالیسی بنا کر اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

’ہم بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کی وجہ ڈھونڈنے کے لیے ریسرچ کر رہے ہیں، جس میں دو بنیادی نکات یعنی خاندان کا ماحول اور دوستوں کی صحبت دیکھ رہے ہیں۔ آپ گھر سے باہر ہونے والے واقعات کو روک لیں گے لیکن گھر کے اندر رشتہ داروں سے بچوں کو کیسے بچائیں گے۔‘

پلوشہ کا مزید کہنا ہے کہ ریپ کے 80 فیصد واقعات میں پڑوسی یا گھر کے آس پاس کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ’ایک پڑوسی کے لیے کسی دوسرے علاقے کے شخص کے مقابلے میں کسی بچے کو نقصان پہنچانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ پڑوسی نے دیکھا، گھر کے باہر بچی یا بچہ کھیل رہا ہے اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے اور وہ اس کو گھر کے اندر لے جاتا ہے۔ ‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ آج کل موبائل کے ذریعے بھی کم عمر افراد کی رسائی بھی فحش مواد تک ہو چکی ہے۔

سماجی اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی ڈھائی سالہ زینب سے ریپ اور قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) خیبرپختونخوا کے کوآرڈینیٹر ثناء احمد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ہر دوسرے دن ایسے واقعات ہمیں مایوس کرتے ہیں، شہریوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس کا خا تمہ کب ہوگا۔ ہمارے قوانین اور ان کا نفاذ اتنا سخت ہونا چاہیے کہ سزا کے بارے میں محض سوچ ہی زیادتی کرنے والوں کو خوف سے کپکپا دے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان