افغانستان سے انخلا اب بھی حالات سے مشروط: امریکہ

امریکی جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کا انخلا، تشدد میں کمی اور فروری میں طالبان کے ساتھ طے شدہ دیگر شرائط پر عمل پر منحصر ہوگا۔

(اے ایف پی)

امریکی جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کا انخلا، تشدد میں کمی اور فروری میں طالبان کے ساتھ طے شدہ دیگر شرائط پر عمل پر منحصر ہوگا۔

انہوں نے یہ بات سوموار کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہی۔

پانچ روز قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کو 'کرسمس تک گھر واپس لانا چاہتے ہیں'۔ جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملی نے این پی آر ریڈیو کے ساتھ انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا طالبان کے حملوں کو کم کرنے اور کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر منحصر ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملی نے این پی آر کو بتایا کہ مکمل معاہدہ اور تمام تر انخلا کے منصوبے حالات سے مشروط ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اہم بات یہ ہے کہ ہم اس جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا ان شرائط پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو افغانستان میں امریکی قومی مفادات کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہیں۔'

جنرل ملی کا کہنا تھا کہ فروری معاہدے کے بعد امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے ہی 12000 سے کم ہوچکی ہے ، جس کے لیے طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات اور تشدد میں تیزی سے کمی کی ضرورت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیشہ اس بات پر اتفاق رہا ہے۔ صدر کا بھی مشروط انخلا کے حوالے سے یہی فیصلہ تھا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ افغانستان میں کئی سال پہلے کے مقابلے میں تشدد میں کافی کمی آئی ہے ، لیکن گذشتہ چار پانچ مہینوں میں زیادہ کمی نہیں دیکھی گئی۔

پینٹاگون نے اس انخلا کے بعد افغانستان میں نومبر تک فوجیوں کی تعداد 4500 رکھنے کی توقع ظاہر کی ہے جبکہ اس سلسلے میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ لیکن اس حوالے سے واشنگٹن سے ملے جلے اشاروں نے صورت حال کو مبہم کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگلے سال کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 کر دی جائے گی لیکن بدھ کے روز ٹرمپ نے 25 دسمبر تک تمام فوج واپس رکھنے کا عہد کیا۔

ان کا یہ بیان صدارتی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایک مختصر مدت میں فوجوں کا انخلا افغان امن مذاکرات میں کابل حکومت کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ طالبان شہری علاقوں پر حملے بند کردیں گے اس کے برعکس گذشتہ ہفتے کے آخر میں صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے مضافات میں بڑی لڑائی شروع ہوئی اور امریکی فورسز نے طالبان جنگجوؤں پر فضائی حملے کیے۔

ملی نے مخصوص تعداد کے بارے میں بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ صدر ٹرمپ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم ان حالات پر اپنا بہترین فوجی مشورہ دے رہے ہیں تاکہ صدر باخبر رہ کے، سمجھ بوجھ کر اور ذمہ دارانہ فیصلہ کرسکیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ