امن ہمارا ہدف اور جنگ وسیلہ ہے: گلبدین حکمت یار

افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔  

افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔  

اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ منگل کو ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ابتدایئے میں 20 سال بعد کابل واپسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدہ انہوں نے کسی بیرونی طاقت کی مدد کے بغیر کیا تھا۔ 

انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان کا امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدے میں کردار تھا۔ ’اگر پاکستان یہ نہ کرتا تو دوحہ معاہدہ اور بین الافغان مذاکرات شروع نہ ہوتے۔‘   

اس پر انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال کہ کابل کے ساتھ انہوں نے بغیر کسی بیرونی مدد کے معاہدہ کیا تو افغان بغیر پاکستان کے آپس میں بیٹھ کر کوئی معاہدہ کیوں نہیں کرتے، کے جواب میں 71 سالہ حکمت یار نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک ہے اور ان تمام معاملات میں ان کا حصہ ہے۔ 

پریس کانفرنس کا دلچسپ پہلو سینیئر صحافی سلیم صافی کی بطور مترجم گلبدین حکمت یار کے ساتھ موجودگی تھی۔ انہوں نے ایک صحافی کے مطابق یہ ذمہ داری پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کی۔ 

گلبدین حکمت یار کی جماعت دوحہ مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں ہے۔ ان کی افغان حکومت نے متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ طالبان سے بات چیت کا مشورہ نہیں مانا گیا لہذا وہ اس عمل کا حصہ نہیں بنے ہیں۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ امن کی راہ میں رکاوٹیں موجود ہیں۔ ’جنگ سے امن زیادہ مشکل ہے۔ بدقسمتی سے ایسی قوتیں ہیں جو افغانستان کے اندر اور باہر جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘ 

ایسے عناصر کون ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جنگ کی ہی وجہ سے اشرافیہ بن گئے ہے۔ انہوں نے افغان حکومت پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اس میں امن لانے کی صلاحیت نہیں۔

’کابل ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہے۔ امن ہمارا ہدف اور جنگ وسیلہ ہے۔‘ 

اس بیان سے خطرناک حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ گلبدین حکمت یار اب بھی جنگ کے بارے میں سوچتے ہیں اور اسے امن حاصل کرنے کا ایک ذریعہ مانتے ہیں۔ 

افغان جنگجو سردار نے منگل کی صبح وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی اور افغان قیام امن پر گفتگو کی۔ ابھی واضح نہیں کہ ان کی پاکستانی فوجی حکام سے ملاقات کب متوقع ہے۔

افغان مہمان بدھ کو اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک میں بھی اظہار خیال کریں گے۔ 

گلبدین حکمت یار نے پاکستان سوموار کو آمد سے چند ہفتے قبل افغان طالبان کے ساتھ اتحاد پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کی بات چیت کے فوری بعد حزب اسلامی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے گی، تاہم اب طالبان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ان کی پاکستان طویل عرصے کے بعد آمد معنی خیز ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ آپ نے جہاد سٹینگر راکٹ کی مدد سے جیتا تھا، گلبدین حکمت یار کا اصرار تھا کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ ’یہ جنگ سٹینگر نے نہیں جیتی تھی۔ وہ امریکہ کے پاس پہلے بھی تھے۔ وہ جہاد کے آخری ایام میں مجاہدین کو ملے تھے۔ یہ تو سٹینگر کو فائدہ دینے کے لیے جھوٹا دعویٰ ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی انتخاب میں ہار بھی جائیں تو پھر بھی انخلا ہوگا۔

’انخلا کا فیصلہ صرف ٹرمپ کا نہیں سی آئی اے اور فوجی جنریلوں کا بھی ہے۔‘

امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ نہیں ہاریں گے۔ 

افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے بعد یہ دوسری اہم افغان شخصیت کا حالیہ دنوں میں پاکستان کا دورہ ہے۔  

ماہرین کے مطابق پاکستان نے بظاہر دوحہ میں جاری مذاکرات کے تناظر میں تمام اہم سیاسی شخصیتوں سے رابطے شروع کر رکھے ہیں۔ کابل میں پاکستانی سفیر بھی کافی متحرک ہیں اور گذشتہ روز انہوں نے سابق افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا