چاند پر کی گئی دو تحقیقوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاند پر اس سے زیادہ پانی موجود ہے جتنا اس سے پہلے سوچا گیا تھا۔
نئی دریافت سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ مستقبل میں خلائی مشن پر جانے والے خلانوردوں کو تازہ دم ہونے کے لیے چاند کی سطح پر کوئی مشروب حتیٰ کہ ایندھن بھی مل جائے گا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تقریباً ایک دہائی تک چاند کو انتہائی خشک سمجھا جاتا تھا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ ہمارے قریب ترین ہمسایہ سیارے پر برف کی شکل میں پانی کے آثار موجود ہیں، جو مستقل طور پر تاریکی میں رہنے والے گڑھوں اور کناروں پر واقع حصوں میں پائے گئے۔
نئی تحقیق کے نتائج پیر کو ’نیچر اسٹرونومی‘ نامی جریدے میں شائع ہوئے، جس میں بتایا گیا کہ چاند کی سطح پر پانی زیادہ بڑے حصے میں پھیلا ہوا ہو سکتا ہے۔ پہلی بار یہ تصدیق بھی ہوئی ہے کہ پانی چاند کے ان حصوں میں موجود ہے جو سورج کی دھوپ سے روشن ہیں اور وہاں تک رسائی نسبتاً آسان ہے۔
اس پانی کو حاصل کرنے کی صورت میں چاند اور اس سے آگے جانے والے خلانوردوں کی پینے کے پانی تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اس پانی کے مالیکولز سے ہائیڈروجن حاصل کرکے راکٹ کا ایندھن بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خلائی تحقیق کا امریکی ادارہ ناسا اس معاملے میں خاص دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ وہ 2024 میں انسانی مشن کو چاند پر روانہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور وہاں موجودہ دہائی کے اختتام تک زیادہ دیرتک قیام کرنا چاہتا ہے تاکہ مزید آگے مریخ کا سفر کر سکے۔
ہوائی انسٹی ٹیوٹ آف جیوفزکس اینڈ پلینٹالوجی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کی سرکردہ مصنف کیسی ہنی بال نے کہا ہے کہ نئی تحقیق کے تحت چاند کے سورج کی بدولت روشن حصوں میں مالیکیول کی شکل میں موجود پانی کے آثار کو واضح انداز میں الگ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہنی بال ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر ہمیں چاند کے بعض مقامات پر پانی وافر مقدار میں مل گیا تو اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم اسے انسانی تحقیق میں استعمال کر سکیں۔‘
اس سے پہلے کی گئی تحقیق میں چاند کی روشن سطح پر پانی کے آثار ملے تھے لیکن ان کے پانی اور ہائیڈروکسل ہونے کے درمیان امتیاز کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہائیڈروکسل ایک ایسا مالیکیول ہے جو ایک ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کے ایٹم سے مل کر بنتا ہے (پانی کا ایک مالیکیول ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کے ایک ایٹم سے مل کر بنتا ہے)۔
محققین نے چاند پر پانی کے آثارکا پتہ لگانے کے لیے انفراریڈ اسٹرونومی ایئربورن ٹیلی سکوپ کے ذریعے اکھٹے کیے گئے ڈیٹا کا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیا جو اس سے پہلے نہیں لیا گیا تھا۔ اس جائزے کے دوران انہیں چاند کی سطح پر موجود کیلویئس نامی گڑھے میں فی 10 لاکھ ایک سو سے چار سو حصوں تک پانی کا ارتکاز ملا۔ جس گڑھے میں پانی کی نشاندہی ہوئی وہ ان گڑھوں میں سے ایک ہے جنہیں زمین سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ناسا میں پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر ہنی بال نے بتایا کہ چاند کی ایک مکعب میٹر مٹی میں تقریباً بوتل کے 12 اونس (350 ملی لیٹر) پانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چاند پر پانی کے تالاب نہیں بلکہ پھیلے ہوئے مالیکیول ہیں جن سے برف یا مائع شکل میں پانی نہیں بنتا۔ محققین کا ماننا ہے کہ یہ مالیکیول چاند کی ہواؤں یا چھوٹے شہابیوں سے پیدا ہوئے جو شاید شیشے کے موتیوں یا چاند کی سطح پر موجود دانوں میں قید ہو کر سخت فضا سے محفوظ ہو گئے۔
دوسری تحقیق میں محققین نے چاند کے خطبی حصوں پر غور کیا جہاں ایسے گڑھوں میں برف پائی گئی جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔ ناسا کو 2009 میں بھی چاند جنوبی خطب میں ایک گہرے گڑھے میں پانی کے کرسٹل ملے تھے۔ اس نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ کڑوروں کی تعداد میں مایئکرو گڑھوں میں کم کم مقدار میں برف موجود ہے۔
ایک تحقیق کے لیڈ مصنف یونیورسٹی آف اولرآڈو کے ایسٹروفیزکز ڈیپارٹمنٹ کے پال ہین نے کہا: ’اگر آپ چاند یہ اس کے خطبوں کے قریب کہیں کھڑے ہیں تو آپ کو سطح پر سایوں کی ایک ’کہکشاں‘ دھکے گی۔ یہ ایک سکے سے بھی چھوٹی ہیں اور ہر ایک سایہ شدید سرد ہوگا، اتنا سرد کہ یہاں برف ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’چاند پر اس سے بھی زیادہ پانی سے جنتا پہلے سوچا جاتا تھا۔‘