ٹرمپ کے جیتنے سے روس اور چین کتنے طاقت ور ہوں گے؟

چین اور روس بہت پہلے سے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر رہے تھے لیکن ٹرمپ کے دور صدارت میں ان کے جارحانہ رویے میں اضافہ ہوا ہے: رپورٹ۔

(اے ایف پی)

کینیڈا کے ناول نگار سٹیفن مارش نے ایک بار لکھا تھا: 'کینیڈا میں ہر  وہ شخص جس کے پاس کوئی بھی اختیار ہو اس کی ایک جیسی ذمہ داری ہوتی ہے۔' وہ ذمہ داری یہ دیکھنا اور اس پر ردعمل کا  اظہار کرنا ہے کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے بہت چھوٹا سوچا تھا۔ بیان میں صرف امریکہ کے ہمسائے کے  بارے میں سچی بات نہیں کی گئی، یہ پوری دنیا پر صادق آتا ہے۔

ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی بھی اختیار ہو وہ اتنی شدت کے ساتھ دیکھ رہا ہے جسے ناپا نہیں جا سکتا کیونکہ آنے والا امریکی صدارتی انتخاب ذہنوں میں موجود کسی بھی گذشتہ انتخاب کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔

قیمتی اور طویل عرصے سے کسی اعتراض کے بغیر درست سمجھے جانے والے نظریے کا وجود خطرے میں ہے۔ وہ نظریہ نام نہاد لبرل ورلڈ آرڈر کا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ جیت کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مغربی طاقت کے خاتمے کا آغاز ہو جائے۔

جب ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ نے نیٹو کا تمام بوجھ اٹھا رکھا ہے تو ان کی بات غلط نہیں تھی۔ وہ فوجی اتحاد جس میں زیادہ مغربی جمہوریتیں شامل ہیں، سوویت یونین کے دنوں میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایسی ذمہ داری ہے جو اختیار کے ساتھ آتی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکہ نے اس نظام کی حمایت کی ہے جو بین الاقوامی ذمہ داری کی بنیاد ہے، یعنیٰ عالمی ادارے جیسا کہ اقوام متحدہ اور خود مختاری کے احترام کا یہ عمومی نظریہ اور معاہدوں اور باہمی طور پر قابل اطلاق قواعد کے ذریعے سفارت کاری کرنا۔

یہ نظام خامیوں سے پاک ہونے سے دور ہے اور امریکہ نے ہمشیہ دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کیا یا اس کا کردار اچھا نہیں رہا، لیکن دنیا میں اپنی بڑی چھڑی کے ساتھ چلنے والے بڑے بھائی امریکہ کے بغیر یہ اثر کبھی اتنا زیادہ واضح نہیں ہوا جتنا گذشتہ چار سال میں ہوا ہے۔

جب ٹرمپ شام اور افغانستان کی لڑائیوں اور اپنے اتحادی جرمنی سے فوجیں نکالتے ہیں۔ جب ٹرمپ ایران کے ساتھ کیے گئے ایٹمی معاہدے اور ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کے تجارتی معاہدے سے الگ ہوتے ہیں۔

جب ٹرمپ نیٹو اور تمام دوسرے فاضل عالمی اداروں کے ساتھ دشمنی پرمبنی سلوک کرتے ہیں۔ جب وہ شمالی کوریا کے کم جونگ ان اور روس کے ولادیمیر پوتن کے گیت گائیں لیکن آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرن بل کا فون بند کر دیں۔ جب ٹرمپ نے تمام باتیں میڈیا کو اس حد تک لیک کر دیں حتیٰ کہ وہ اجلاس جس میں عملے کو معاملات افشا کرنے سے گریز کرنے کے لیے کہا گیا، خود اس کی کارروائی بھی لیک کر دی۔

جب سینیئر حکام مسلسل کام چھوڑ جاتے ہیں اور جب کوئی جسے' پاگل کتے' کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے، صدر کو یہ کہہ کر استعفیٰ دیتا ہے کہ 'آپ کو ایسا وزیر دفاع رکھنے کا حق ہے جن کی خیالات زیادہ بہتر طور پر آپ سے ملتے ہوں۔' جب یہ سب کچھ چارسال کے مختصر عرصے میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو روس اور چین وہ کمزوری بھانپ لیتے لیں جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

چین اور روس ٹرمپ سے بہت پہلے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر رہے تھے لیکن ٹرمپ کے دور صدارت میں ان کے جارحانہ رویے میں اضافہ ہو گیا۔ چین نے خودمختار ہانگ کانگ میں مخالفت کا آگے بڑھ کر مقابلہ کیا۔ لسانی اقلیتوں کو وہاں رکھا جن پر ناقدین حراستی مراکزہونے کا الزام لگاتے ہیں اور جنوبی چین کے سمندر پر اپنے دعوے کو جارجانہ انداز میں پیش کیا۔

مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں روسی اسلحے کی بھرمار ہے جب کہ اس کی جانب سے سمندر پار قتل کے واقعات اور انتخابات میں مداخلت کے شواہد بڑھے ہیں۔ روس نے مبینہ طورپر افغانستان میں امریکی فوجیوں کے سروں پر انعام کا اعلان کیا۔

مغرب میں بہت سے لوگوں کو یہ واقعات بعض اوقات خیالی اور دور کی کوڑی محسوس ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ دل کے قریب تکلیف دہ انداز میں چوٹ کرتے ہیں۔ کینیڈا نے 2018 میں بڑی چینی ٹیلی مواصلاتی کمپنی ہواوے کی چین سے تعلق رکھنے والی چیف فائنانشل افسراور کمپنی کے بانی کی بیٹی مینگ وان چو کو گرفتار کر لیا تھا۔ کینیڈا نے یہ کارروائی امریکہ کی جانب سے ان کی حوالگی کی درخواست پر کی۔ وہ امریکہ کو دھوکہ دہی کے ان الزامات کے تحت مطلوب تھیں جن سے وہ انکار کرتی ہیں۔

اس اقدام پر چین غصے میں آ گیا اور اس نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کینیڈا کے دو شہریوں کو گرفتار کرلیا جن میں سے ایک سفارت کار تھے جو رخصت پر تھے۔ سیاسی و جغرافیاتی تجریہ کاروں نے ان گرفتاریوں کو جوابی کارروائی کے طور پر دیکھا۔ بعد ازاں رواں سال دوطرفہ اختلافات کی فضا میں چین نے آسٹریلیا کے ایک صحافی کو حراست میں لے لیا۔ اس اقدام کا بہت پہلے سے پتہ تھا۔ پھر آسٹریلیا کے دو دوسرے رپورٹروں نے بتایا کہ وہ بڑی مشکل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

ملکی ناقدین ایسی لاکھوں باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں وہ ٹرمپ کی غلطیاں قرار دیتے ہیں۔ لیکن دنیا کے لیے عمومی طور پر ان کے عہد صدارت کے عظیم اثرات میں ایسی گرفتاریاں شامل ہیں۔ان گرفتاریوں سے چین کی دیدہ دلیری ظاہر ہوتی ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ چین امریکہ کا براہ راست مقابلہ کرنے کی جرات نہ کرے لیکن وہ امریکی اتحادیوں کو کھلے مقابلے کے لیے دیکھ رہا ہے۔

اس تمام صورت حال کے عین وسط میں کمانڈر ان چیف (ٹرمپ) کی ذاتی کمزوری کھڑی ہے۔ ٹرمپ نے ایک مرتبہ چینی صدر ژی جن پنگ سے 10 منٹ کی گفتگو کے بعد شمالی کوریا سے متعلق اپنی سوچ بدل لی تھی۔ یہ منظر نامہ گذشتہ سال ٹی وی سیریز ہوم لینڈ کے سیزن 8 میں دکھایا گیا تھا، جس کے ایک منظر میں تصوراتی امریکی صدر ٹیلی فون پر ایک غیر ملکی لیڈر کے مشورے کو اپنے ذاتی مشیران کے مشورے پر فوقیت دے دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے اپنی کتاب ’دی روم ویر اٹ ہیپنڈ‘ میں لکھا کہ کس طرح ٹرمپ نے بغیر کسی تیاری کے عشائیے پر ژی جن پنگ سے ملاقات کی، جبکہ چینی صدر اپنے ساتھ انڈیکس کارڈز لائے تھے، جن پر لکھا تھا کہ انہیں کیا بات کرنی ہے۔ بولٹن کے مطابق اس ملاقات میں ژی کا پلڑہ بھاری رہا اور وہ بعد ازاں ٹرمپ سے  تجارتی مذاکارت میں رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے 2017 میں رپورٹ کیا تھا کہ روسی وزیر خارجہ سے ایک ملاقات میں ٹرمپ نے انتہائی خفیہ معلومات افشا کرتے ہوئے ’شیخی‘ ماری کہ: ’مجھے عمدہ انٹیلیجنس ملتی ہے، میرے لوگ روزانہ مجھے بہترین انٹیلیجنس فراہم کرتے ہیں۔‘ یہ حساس معلومات افشا ہونے کے بعد سی آئی اے کو اپنے جاسوس کو فیلڈ سے واپس بلانا پڑ گیا تھا۔

یہ محض چند واقعات ہیں جن سے عوام آگاہ ہیں۔ ٹرمپ پہلے ہی نجی طور پر پوتن سے پانچ ملاقاتیں کر چکے تھے، جن میں ان موضوعات پر گفتگو ہوئی جس سے خود ان کا اپنا عملہ بھی آگاہ نہیں۔

ایک چیز جو ہم نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے کیا کچھ نہیں بتایا۔ جولائی کے آخر میں ایکزیئوز کے ساتھ انٹرویو میں ٹرمپ نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے پوتن کے سامنے اب تک امریکی فوجیوں پر مبینہ روسی انعام کا معاملہ نہیں اٹھایا۔

اس سارے نقصان کے ازالے کے لیے طویل وقت درکار ہو گا اور یہ بھی ایک سوال ہے کہ آیا ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن ایسا کر پائیں گے یا نہیں۔ لیکن جو بات یقینی ہے کہ وہ یہ کہ ٹرمپ کے مزید چار سالوں کا مطلب ہو گا کہ عالمی استحکام کی مزید کمزوری، جو شاید اس حد تک گر جائے کہ اسے دوبارہ ٹھیک نہ کیا جا سکے۔


ایتھن لو ایک فری لانس کینیڈین صحافی اور ’فیلڈ نوٹس فرام اے پینڈامک‘ کے لکھاری ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ