مشتری پر ناسا مشن کے دوران ’جنات اور پریاں‘ دیکھی گئیں

ناسا کے مطابق کسی اور سیارے پر ایسے مناظر پہلی بار دیکھے گئے ہیں۔

( NASA, ESA, A. Simon (Goddard Space Flight Center), and M.H. Wong (University of California, Berkeley) )

ناسا کے مشتری پر بھیجے گئے مشن جونو نے سیارے پر عجیب الخلقت ’جنات اور پریوں‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔

یہ مافوق الفطرت وجود ان روشنیوں سے بھرپور واقعات کے دوران دیکھے گئے جب یہ روشنیاں غیر متوقع طور پر روشن اور عجیب طرح سے سامنے آئیں۔

ناسا کے مطابق کسی اور سیارے پر ایسے مناظر پہلی بار دیکھے گئے ہیں۔

نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے کی ان روشنیوں کے بارے میں سائنسدانوں نے پیشن گوئی کی تھی جن کے خیال میں مشتری کے مائع قسم کے ماحول میں یہ روشنیاں موجود ہو سکتی ہیں۔ ان روشنیوں کا مشاہدہ ان سائنسدانوں نے کیا ہے جو جونو مشن پر الٹراوائلٹ سپیکٹروگراف پر کام کر رہے تھے جو مشتری کے مدار پر تحقیق کا حصہ ہے۔

جونو پر کام کرنے والے سائنسدان اور تحقیق کے کلیدی مصنف جائلز کا کہنا ہے کہ ’الٹراوائلٹ سپیکٹروگراف (یو وی ایس) کو ڈیزائن کرنے کا مقصد مشتری کی خوبصورت شمالی اور جنوبی روشنیوں کا مشاہدہ کرنا تھا لیکن ہم نے یو وی ایس تصاویر کا مشاہدہ کیا جو نہ صرف جووین اورورا (رنگین روشنیاں) ظاہر کرتی ہیں بلکہ الٹروائلٹ مخصوص روشنی بھی ایسے کونے میں دکھا رہی تھیں جہاں انہیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہماری ٹیم نے اس پر جتنی زیادہ تحقیق کی اتنا ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ جونو نے مشتری پر ٹی ایل ای کی تشخیص کر لی ہے۔‘

ایک ’سپرائٹ‘ ایک روشنی کا دوسری روشنی میں تبدیل ہونے کا عمل ہے جو روشنیوں کے طوفانوں کے دوران توانائی خارج کرنے سے عمل پذیر ہوتا ہے۔

زمین پر یہ عمل صرف چند ملی سکینڈز دورانیے کا ہوتا ہے جو کہ اپنی مرکزی روشنی کے طویل دھارے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے جو بیک وقت زمین اور آسمان کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے۔

دریں اثنا ’ایلوز‘ جو کہ کم فریکوئنسی پر خارج ہونے والی روشنی اور الیکڑومیگنیٹک ذرائع کا مختصر نام ہے ایک متوازی ڈسک کی طرح دکھائی دیتی ہے یہ زیادہ تر اوپر کے ماحول میں پائے جاتے ہے۔

گو کہ یہ عارضی ہوتی ہیں لیکن یہ زمین پر 230 کلو میٹر تک طویل ہو سکتی ہیں۔

 جائلز کا کہنا ہے کہ ’زمین پر سپرائٹس اور ایلوز سرخی مائل رنگ میں ظاہر ہو سکتی ہیں جو ان کے بلندی پر موجود نائٹروجن سے ہونے والے رد عمل کا نتیجہ ہے لیکن مشتری پر بلندی پر ہائڈروجن کی موجودگی کے باعث یہ نیلی یا گلابی ہو سکتی ہیں۔‘

یہ بجلی گرنے کے بڑے واقعات کی وجہ ہو سکتے ہیں لیکن سائنسدانوں نے اس امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ روشنیاں مشتری کے مائع غلاف کی سطح سے 300 کلو میٹر بلندی پر پائی گئی ہیں جہاں اس سیارے کی زیادہ تر روشنی وجود پاتی ہے۔

اس کے علاوہ سپیکٹروگراف نے یہ بھی ریکارڈ کیا ان روشنیوں میں ہائڈروجن کے اخراج کی مقدار بہت زیادہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جائلز کا کہنا ہے کہ ’جب بھی جونو کوئی سائنسی مشاہدہ کرتا ہے تو ہم ایلوز اور سپرائٹس کے بڑھتے ہوئے نشانات کو دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اب ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا تلاش کر رہے ہیں اس لیے ان کو مشتری اور باقی سیاروں پر تلاش کرنا آسان ہو گا۔ مشتری پر موجود ایلوز اور سپرائٹس کا موازنہ زمین پر موجود ایلوز اور سپرائٹس سے کر کے ہمارے لیے سیاروں کے ماحول میں موجود برقی سرگرمیوں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔‘

یہ تحقیق 27 اکتوبر کو جرنل آف جیوفزیکل ری سرچ میں سیاروں پر تحقیقی سیریز میں شائع کی گئی تھی۔

 سال 2016 میں جونو نے کسی بھی انسانی طور پر تخلیق کردہ شے کے مشتری کے قریب ترین جانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

اس نے مشتری کی سطح پر آنے والے بڑے طوفانوں کے بارے میں معلومات حاصل کی اور سائنسدانوں کو  ’جووین لائٹننگ‘ سے متعلق اہم ڈیٹا فراہم کیا جس سے یہ سامنے آیا کہ یہ طوفان زمین پر آنے والے طوفانوں کے بہت قریب ہیں۔ اس سے بھی زیادہ جتنا پہلے خیال کیا جاتا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس