’‎مسکراتے چہرے کے پیچھے غم کا پتہ آج تک نہیں چلا‘

سوات کی سماجی کارکن نیلم چٹان اپنی ایک قریبی سہیلی کے بارے میں مجھ سے بات کر رہی تھی، جنہوں نے چھ ماہ پہلے ’نامعلوم وجوہات‘ کی بنا پر اپنی زندگی کا چراغ گل کیا۔

 نیلم کے مطابق زلیخا (فرضی نام) کے خودکشی کرنے کی وجوہات آج تک معلوم نہ ہوسکی ہیں

‎’زلیخا میری کالج کی دوست تھی، کچھ عرصہ میری یونیورسٹی میں بھی کلاس فیلو رہی۔ وہ انتہائی ہنس مکھ تھی اور ان کا خوبصورت ہنستا مسکراتا چہرہ میں آج بھی نہیں بھولی، آج بھی نہ صرف میں بلکہ ہماری ساری سہیلیاں اپنے آپ سے یہ سوال کرتی ہیں کہ آخر وہ کون سا غم تھا جس نے ہنستے مسکراتے کردار کی مالک زلیخا کی زندگی اُن سے چھین لی۔‘

سوات کی سماجی کارکن نیلم چٹان اپنی ایک قریبی سہیلی کے بارے میں مجھ سے بات کر رہی تھی، جنہوں نے چھ ماہ پہلے ’نامعلوم وجوہات‘ کی بنا پر اپنی زندگی کا چراغ گل کیا۔

 نیلم کے مطابق زلیخا (فرضی نام) کے خودکشی کرنے کی وجوہات آج تک معلوم نہ ہوسکی ہیں۔

’ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی کہ مجھے اچانک  مبائل پر میسج ملا کہ آپ کی سہیلی زلیخا نے خودکشی کرلی ہے۔‘

نیلم وہاں خودکشیوں کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جہاں بھی لڑکیاں یا خواتین خودکشی کرتی ہیں تو صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ’گھریلو ناچاقی کی بنا پر‘ خود کشی کرلی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان خودکشیوں کی ایک چھوٹی سی خبر مقامی اخباروں میں شائع ہو جاتی ہے اور پھر  ایسے واقعات کا سدباب تو درکنار، کوئی بھی ان واقعات پر نہ تو لب کشائی کرتا ہے اور نہ ہی کسی نے ابھی تک اس پر تحقیق کرنے کی جسارت کی ہے۔‘ 

‎کرونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دنوں میں نیلم سے ملنے ان کے گھر گئی تو اس کے پاس ایسے کئی واقعات تھے جن میں ان کے جاننے والی لڑکیوں نے خودکشیاں کی ہیں۔

 

وہ سجھتی ہیں کہ2015 کے بعد سے ملاکنڈ ڈویژن میں ’عموماً اور سوات میں خصوصاً خودکشیاں ایک عام سی بات‘ بن گئی ہے-

نیلم کے خیال میں اس مجموعی ذہنی و سماجی بحران کے پیچھے ’طالبانائزیشن‘ کا وہ دور ہے جس میں اس علاقے کے لوگوں کو ایک سنگین ذہنی، مالی و جسمانی اذیت سے گزرنا پڑا۔

اگرچہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ سوات میں خودکشیوں کی شرح تعلیم یافتہ لڑکیوں کے مقابلے میں غیرتعلیم یافتہ لڑکیوں اور خواتین میں زیادہ ہے، لیکن نیلم کے مطابق انہوں نے ایسے کئی کیسز کے بارے میں بھی سنا ہے، جو تعلیم یافتہ خواتین نے کی ہیں۔

’میں نے تو نرسنگ اور پولیس جیسے محکمے میں کام کرنے والی خواتین کی  خودکشیوں کا بھی سنا ہے، حالانکہ ان دونوں پیشوں میں تو بذات خود وہ دوسرے انسانوں کی جانیں بچاتی ہیں۔‘

 نیلم کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ذہنی امراض پر کھلم کھلا بات نہیں کی جاتی  اور اکثر مریض ان کو درپیش ذہنی مسائل کے بارے میں کسی سے ذکر نہیں کرتے۔

 ’یہاں آج بھی معمولی ذہنی بیماری کو پاگل پن سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی معمولی ذہنی مسئلے  کا بھی شکار ہوجائے تو وہ ماہر نفسیات کے پاس جانے میں شرمندگی محسوس کرتا ہے۔‘

نیلم اپنے ایک اور کالج فیلو  کے بارے میں  کہتی ہے کہ ان کے سامنے  ایک طالبہ نے اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کی تھی اور اپنی نبض کو کاٹا تھا لیکن ان کی ایک ٹیچر کی مدد سے سائیکاٹریسٹ کے پاس جانے اور کچھ سیشنز لینے کے بعد وہ طالبہ بالکل ٹھیک ہو گئی۔

’میرے خیال میں یہاں کے نوجوانوں کے لیے ایسے سرگرمیاں ہونی  چاہیے جس میں ذہنی بیماریوں کے بارے میں اُنہیں نہ صرف آگاہ کیا جائے بلکہ ان کے علاج کرنے کی بھی کوشش کی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 سوات کے ایک اور سماجی کارکن عثمان اولسیار کہتے ہیں کہ سوات کے ان علاقوں میں لڑکیوں اور خواتین کے خودکشیوں کی شرح زیادہ ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کم ہے۔

 اولسیار کے مطابق سوات اور آس پاس کے علاقوں کے اکثر نوجوان شادی کرنے کے بعد سالہاسال مزدوری کرنے بیرون ملک میں گزار دیتے ہیں اور ان کی بیویاں یہاں رہ جاتی ہیں۔

’ان خواتین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تو ان کے شوہر کا ساتھ نہیں ہونا ہوتا ہے اور کئی کیسز میں ان کے شوہر پانچ، پانچ یا چھ، چھ سال کے بعد گھر آتے ہیں۔‘

عثمان اولسیار کے مطابق سوات میں لڑکیوں اور خواتین کے خودکشیوں کے کیسز میں اکثر اوقات ’کیڑے مار دوائی‘ ہی استعمال ہوتی ہے جو کہ یہاں ہر گھر میں آسانی سے دستاب ہوتی ہے۔

 ’آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ کسی خاتون یا لڑکی نے بندوق یا پستول سے اپنے آپ کو مارا اور خودکشی کی بلکہ بندوق یا پستول سے خودکشی اکثر اوقات مرد ہی کرتے ہیں کیوں کہ بندوق تک رسائی صرف مرد  کو ہوتی ہے اور خواتین کے لیے گھر میں موجود دیگر اشیا جس میں پنکھے سے پھندا، کیڑے مار دوائیں، نیند کی گولیاں شامل ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین