صدارت کے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ کو قانونی کارروائی کا کتنا خطرہ ہے؟

رپورٹس گردش کر رہی ہیں کہ فراڈ، جنسی حملوں اور بدعنوانی کے حوالے سے تفتیش کا سامنا کرنے والے صدر ٹرمپ عہدہ چھوڑنے سے پہلے خود کو معافی نامہ دے دیں گے۔

صدر ٹرمپ پر عائد الزامات کے وسیع پیمانے اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے تمام شواہد کو جانچنے کے لیے ایک خاص کمیشن کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔(اے ایف پی فایل)

2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے بارے میں تحقیقات کرنے والے خصوصی امریکی تفتیش کار رابرٹ ملر اپنی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کے بعد جب کانگرس میں پیش ہوئے تو ان سے ری پبلکن پارٹی کے کین بک نے پوچھا: ’کیا آپ صدر کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ان پر فرد جرم عائد کر سکتے ہیں؟‘

اس پر ملر نے کہا: ’جی ہاں‘۔ کین بک نے پھر پوچھا: ’آپ مانتے ہیں کہ انہوں نے کچھ کیا۔۔۔ آپ امریکہ کے صدر کو ان کے عہدے سے ہٹنے کے بعد انصاف میں مداخلت کے الزام میں فرد جرم عائد کر سکتے ہیں؟‘ رابرٹ ملر کا پھر سے جواب ’جی ہاں‘ تھا۔

خصوصی تفتیش کار کی رپورٹ میں یہ نتیجا نکلا تھا کہ صدر ٹرمپ نے کم سے کم دس مواقعوں پر انصاف میں مداخلت کی۔ تاہم ملر نے 1973 میں محکمہ انصاف کے ایک فیلصے کو مد نظر رکھا جس کے تحت ایک موجودہ صدر پر فرد جرم عائد نہیں کیا جا سکتا، اس کو دیھان میں رکھتے ہوئے ملر نے فیصلہ کیا کہ صدر پر وفاتی جرم کے لیے فرد جرم عائد کرنا ’غیر آئینی‘ ہوگا۔

صدور کے استحقاق کے حوالے سے محکمہ انصاف کے 47 سالہ فیصلے نے صدر ٹرمپ کو کافی حد تک کئی تحقیقات اور مقدمات سے بچا رکھا ہے جس میں ان کی ٹیکس گوشواروں کو عام کرنے کے حوالے سے چلی آئی ایک سالہ تحریک بھی شامل ہے۔

مگر اب صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس سے جلد روانگی نے انہیں کمزور کر دیا ہے۔ جلد ہی ان کو عہدے کا تحفظ اور اپنے وفادار اٹارنی جنرل ولیئم بار کی خدمات حاصل نہیں رہیں گی۔ کچھ پراسیکیوٹر صدر اور ان کے دوستوں پر مقدمے کرنے کے حوالے سے پریشان تھے۔

ولیئم بار کی جانب سے صدر ٹرمپ کے دوست راجر سٹون کے جیل کی سزا کی مدت کم کرنے کے بعد پراسیکیوٹرز نے میڈیا سے ذاتی طور پر بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ویلیم بار ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ مگر اب یہ رکاوٹ نہیں رہی۔

صدر ٹرمپ نو وفاقی، ریاستی اور ڈسٹرکٹ ایجنسیوں کی جانب سے کی جانے والی 15 سول اور مجرمانہ تحقیقات میں شامل ہیں جو نہ صرف ان کے کاروبار اور ذاتی مالی معملات میں چھان بین کر رہے ہیں بلکہ ان ٹیکس معملات، صدارتی مہم، انوگرل کمیٹی اور ان سے جڑے فلاحی اداروں کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

ان میں سے بہت سے تحقیقات خود ہی آگے بڑھیں گے، مگر صدر ٹرمپ پر عائد الزامات کے وسیع پیمانے اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے تمام شواہد کو جانچنے کے لیے ایک خاص کمیشن کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔

کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹ رکن کانگریس ایرک سوالویل کا کہنا ہے: ’جب ہم اس ٹرمپ دوزخ سے نکلیں، تب امریکہ کو ایک صدارتی جرائم (کی تحقیق) پر کمیشن کی ضرورت ہے۔ اس میں آزاد پراسیکیوٹر ہونے چاہییں جو ان سب کی جانچ کریں جنہوں نے ایک بدعنوان صدر کی مدد کی، مثال کے طور پر انتخاب جیتنے کے لیے ڈاک کے نظام کو سبوتاز کرنا۔‘

صدر بل کلنٹن کے دور میں مونیکا لوینسکی سکینڈل میں صدر کلنٹن پر تحقیقات کرنے والے آزاد پراسیکیوٹر کین سٹار نے ملر کی تحقیقات کے دوران کہا تھا کہ ملر یا تو مواخدے کی تجویز دے سکتے ہیں یا پھر صدارت ختم ہونے کے بعد ٹرمپ پر فرد جرم عائد کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کین سٹار بعد میں صدر ٹرمپ کی دفاعی ٹیم کا حصہ بنے جن کانگریس میں صدر پر یوکرینی صدر ولودومیر زلینسکی کر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی یوکرین میں کاروباری سرگرمیوں پر تحقیقات کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے الزام میں مواخذے کی کارروائی ہوئی۔ ایوان نمائندگان میں صدر کو مجرم قرار دیا گیا مگر ری پبلکن اکثریت سینیٹ میں ٹرمپ جیت گئے۔

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا ڈیموکریٹس کی انتظامیہ ملر کی رپورٹ پر صدر ٹرمپ کا پیچھا کرے گی یا نہیں۔ بائیڈن خود اس حوالے سے محتاط رہے ہیں۔ تاہم ان کی نو منتخب نائب صدر کمالہ ہیرس نے کہا ہے کہ محمکہ انصاف کے پاس اس پر عمل کرنے کے علاوہ ’کوئی چارہ‘ نہیں ہوگا۔

نائب صدارت کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا: ’میں یہ مانتی ہوں کہ ہمیں بوب ملر پر یقین کرنا چاہیے جب وہ کہتے ہیں کہ فرد جرم عائد نہ ہونے کی واحد وجہ محکمہ انصاف کا ایک میمو ہے جو کہتا ہے کہ ایک موجودہ صدر پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکتا۔ میں نے اس سے کم شواہد پر قائم کیے گئے پراسیکیوشن کیس دیکھے ہیں۔‘

2016 کی صدارتی مہم کے دوران ان کے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلین کی سربراہی میں ٹرمپ کی ٹیم نے بار بار ’بدعنوان ہلری‘ اور ’اسے جیل میں ڈالیں‘ کے نعارے لگوائے تھے۔ فلین پر ملر کی تحقیقات میں جرم ثابت ہوگیا تھا۔

ہلری کلنٹن پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوا مگر امریکی انتظامیہ نے ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی اور ان کے نائب اینڈریو مککیب پر تحقیقات شروع کی ہیں۔

صدر ٹرمپ ویلیم بار کو عہدے سے ہٹانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اگر انہوں نے باراک اوباما، جو بائیڈن اور دیگر افراد پر ان کے بقول ’اوباما گیٹ‘ سکینڈل کے حوالے سے فرد جرم عائد نہ کیا۔ صدر ٹرمپ کا ماننا ہے کہ ’اوباما گیٹ‘ میں اوباما کے دور کے اہلکاروں نے صدر ٹرمپ کو روس سے ملے ہونے کے الزامات میں پھنسانے کی کوشش کی۔ صدر ٹرمپ اس بات کا بھی اعلان کر چکے ہیں کہ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں وہ پراسیکیوشن کا حکم دیں گے۔

رپورٹس گردش کر رہی ہیں کہ صدر ٹرمپ عہدہ چھوڑنے سے پہلے خود کو معافی نامہ دے دیں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا وہ آئینی طور پر ایسا کر سکتے ہیں اور یہ بات سپریم کورٹ میں ایمی کونی بیریٹ کی تقرری کے حوالے سے کانگریس میں سماعت میں بھی سامنے آئی۔

اگر صدر ٹرمپ خود کو صدارتی معافی دینے والا اس سے قبل پہلے کبھی نہ ہونے والا ایسا اقدام لے بھی لیتے ہیں تو بھی ریاستی  اور مقامی الزامات سے خود کو بچا نہیں سکتے۔ ان میں سے ایک یو ایس اٹورنی آفس فار سدھرن ڈسٹرکٹ آف نیو یارک میں جاری کیس ہے جس میں صدر ترمپ کو ’شخص ایک‘ کہا گیا ہے اور جس میں ان کے ذاتی وکیل مائیکل کوہن پر مہم کے مالی معمالات میں خرد برد کے حوالے سے الزامات ہیں کہ انہوں نے سٹورمی ڈینیئلز سمیت دیگر خواتین کو ٹرمپ کے ساتھ مبینہ تعلقات کے بارے میں خاموش رہنے کے لیے پیسے دیے۔

کوہن نے ان الزامات کو قبول کیا ہے اور حلف میں رہتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ نے انہیں غیر قانونی ادائیگیاں کرنے کا حکم دیا تھا اور انہیں ٹرمپ آرگنائزیشن سے یہ پیسے واپس ملے۔ صدر کے سابق ذاتی وکیل اب ان سے جدا ہیں اور یہ پیش گوئی بھی کر چکے ہیں کہ ان کت سابق باس ’جلد ہی وائٹ ہاؤس سے سیدھا جیل جانے والے پہلے صدر بننے والے ہیں۔‘

ایک اور کیس میں مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹورنی سائرس وینس جونیئر ’ٹرمپ آرگنائزیشن میں ممکنہ بڑے پیمانے اور طویل المدت مجرمانہ طرز عمل‘ پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس میں صدر ٹرمپ کے ٹیکسوں کے علاوہ ان کی کمپنی کے بینک فراڈ، انشورنس فراڈ، مجرمانہ ٹیکس فراڈ اور کاروبار کے ریکارڈز میں غلط بیانی میں ملوث ہونے پر بھی تحقیقات کی جائیں گی۔

صدر ٹرمپ اور ان کی قانونی ٹیم نے ایک عدالتی حکم کو چلینج کیا ہوا جس میں ان کی اکاؤنٹنگ کمپنی سے آٹھ سالوں کے مالی ریکارڈ اور ٹیکس گوشواروں کی معلومات مانگی گئی ہیں۔ پانچ عدلتیں اس چلینج کو مسترد کر چکی ہیں۔ صدر ٹرمپ سپریم کورٹ میں ایک اپیل بھی ہار چکے ہیں جس میں انہوں ایک ریاستی گریڈ جوری سب پینا سے استشنیٰ کی درخواست کی تھی۔

نیو یارک کے اٹورنی جنرل اس پر بھی تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا ٹرمپ آرگنائزیشن نے ٹیکس فائدے اور قرضے لینے کے لیے اپنے اثاثوں کی مالیت کو بدل کر پیش کیا۔ تحقیقات میں نیو یارک میں ٹرمپ سیون سپرنگس کامپلیکس اور لاس اینجلس میں ٹرمپ نیشنل گالف کلب میں ٹیکس بریکس پر بھی تفتیش ہوگی۔

وال سٹریٹ پر ٹرمپ آفس ٹاور کی مالیت اور شکاگو میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور ٹاور کو دیے گئے دس کروڑ کے قرضے کی معافی پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ ایک سول انویسٹیگیشن ہے اور ابھی اس میں کسی قانون ساز ادارے کی معاونت شامل نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک کریمنل معاملہ بن سکتا ہے اگر اس حوالے سے ثبوت ملتے ہیں۔ ٹرمپ آرگنائزیشن کے وکلا نے دعویٰ کیا ہے کہ نیو یارک کی اٹورنی جنرل لٹیشیا جیمز اس کیس کو سیاسی بنیادوں پر چلا رہی ہیں اور صدر ٹرمپ کے ایک بیٹے کی عدالت میں بیان دینے کے لیے پشی کو انتخابات کے بعد تک ملتوی کروانے کی کوشش بھی کی۔ یہ اپیل مسترد کر دی گئی اور ایرک ٹرمپ کو حال ہی میں آن لائن پیش ہونا پڑا۔

صدر ٹرمپ کو  کئی خواتین سے مبینہ جنسی بدسلوکی کرنے کے الزامات اور کیسز کا بھی سامنا ہے جیسے میگزین رائٹر ای جین کیرول کا مقدمہ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 90 کی دہائی میں صدر ٹرمپ نے ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور میں ان کا ریپ کیا۔

ان خواتین نے صدر پر ہتک عزت کا کیس کیا جو انہوں نے صدر کے اس بیان کے بعد کیا کہ وہ ان حملوں کی من گھڑت کہانیاں بنا رہی ہیں۔ ان کیسوں میں صدر نے اپنے عہدے کا فائدی اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ ماہ اٹورنی جنرل ویلیم بار نے کیرول کے مقدمے میں صدر کی جگہ محکمہ انصاف کو مدعا علیہ بنا دیا، جو کہ اس پہلے کھبی نہیں ہوا۔

محکمہ انصاف کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ صدر پر کیس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے کیرول کے بارے میں اپنا بیان ’پریس کے سوالات کے جوابات میں وائٹ ہاؤس کت سرکاری ردعمل کے دوران کہے،‘ حالانکہ جو انہوں نے کہا وہ اس واقعے کے متعلق تھا جو ان کے صدر بننے سے کئی سال پہلے کا تھا۔

کیرول کے وکلا نے کہا کہ ویلیم بار نے انصاف کی اصولی کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ان بیان میں انہوں نے کہا: ’امریکہ کوئی ایک شخص نہیں، نہ صدر نہ کوئی اور، جن کی جب ڈسکرپشن میں ان خواتین کی غیبت کرنا شامل ہو جنہیں انہوں نے جنسی حملوں کا نشانہ بنایا ہو۔‘

اس کے آثار کم ہی ہیں کہ بائیڈن کی سربراہی میں کام کرنے والا محکمہ انصاف صدر ٹرمپ کے اس بیانیے کو جاری رکھے۔ بلکہ ان کی صدارتی کے سالوں میں ہونی والی تقسیم کو ختم کرنے کے اقدامات کی خواہش زیادہ ہوگی۔ نو منتخب صدر کے طور پر اپنی تقریر میں بائیڈن نے ’ٹھیک ہونے کے وقت‘ کی بات کی تھی اور ’ملک کو منقسم نہیں بلکہ جوڑنے‘ کا عہد کیا تھا۔

ہارورڈ لا سکول کے پروفیسر جیک گولڈ سمتھ نے امریکی براڈکاسٹر ’این پی آر‘ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’آیا یہ ملک کے لیے اچھا ہے یہ ایک مشکل سوال ہے جو بہت گندا بھی ہوگا۔ بائیڈن کی انتظامیہ کے لیے گذشتہ صدر پر مقدموں میں شامل ہونے والی پہلی انتظامیہ بننا اچھا ہوگا۔۔۔ یہ بہت مشکل سوال ہیں۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ’آگے دیکھنا اور پیچھے نہ دیکھنا بھی ایک آپشن ہے یہ نہیں۔ ‘

صدر ٹرمپ کی سیاست کی ساخت ایسی زہریلی رہی ہے، جو انہوں اپنے حریفوں کے جانب جارحیت دکھائی ہے، اور ان کے خلاف الزامات کو مجموعہ، ایسے میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے مطالبوں کو روکنا بہت مشکل ہوگا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ