ویانا: چند نسل پرستوں نے مسلمانوں کو ستانے کے لیے کیا کیا؟

گذشتہ ہفتے آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والے فائرنگ کے واقعات کے بعد کی صورت حال اور مسلمانوں کے ردعمل کے حوالے سے پاکستانی خاتون ردا عارف کی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو

تین نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مسلح حملہ آوروں کی جانب سے متعدد مقانات پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

آسٹریا کے وزیر داخلہ کارل نیہمر کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے ہلاک کیے گئے ایک حملہ آور کی شناخت ’داعش کے ہمدرد‘ کے طور پر ہوئی ہے۔

دوسری جانب حملے کے بعد آسٹریا کی حکومت نے ویانا کی ایک مسجد اور ایک اسلامک ایسوسی ایشن کو بند کردیا کیونکہ ان کے مطابق حملہ آور وہاں جایا کرتا تھا، تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ یہ اقدام نہ ہی اسلام اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف ہے۔

 آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے اپنے بیان میں عوام سے کہا: ’یہ لڑائی نہ ہی مسیحی اور مسلمانوں کے درمیان ہے اور نہ ہی آسٹریائی نژاد لوگوں اور دیگر مہاجرین کے درمیان۔ یہ لڑائی ان لوگوں کے درمیان ہے جو امن چاہتے ہیں اور وہ چند افراد جو جنگ چاہتے ہیں۔‘

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ویانا میں مقیم ایک پاکستانی ردا عارف سے گفتگو کی اور ان سے مسلمانوں کے ردعمل کے بارے میں جاننا چاہا۔

ردا ایک ہیریٹیج مینجمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک سال پہلے اپنے شوہر کی ملازمت کی وجہ سے پاکستان سے ویانا منتقل ہوئی تھیں۔

ردا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حملے کے بعد جب چانسلر سیباسٹیئن کرز کا بیان سامنے آیا تھا تو وہاں رہنے والے مسلمانوں کو کافی تسلی ہوئی اور آنے والے دنوں میں نہ ہی انہیں اور نہ ہی ان کے کسی جاننے والے کو کسی نے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا۔ زیادہ تر لوگ امن کا موقف اپنائے ہوئے ہیں۔‘

ردا نے مزید بتایا کہ جس وقت حملہ ہوا، اس وقت تین مسلمان مرد جائے وقوعہ پر موجود تھے اور انہوں ایک زخمی خاتون اور ایک پولیس افسر کی مدد کی تھی جس کی وجہ سے انہیں ملک میں بہت سراہا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ساتھ ہی ردا نے کہا: ’لیکن اچھے برے لوگ تو سب جگہ ہوتے ہیں۔ گذشتہ اتوار ویانا میں ایک ایسے علاقے میں جہاں مسلمانوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، کچھ دائیں بازو کے نسل پرست افراد نے گاڑی میں گزرتے ہوئے لاؤڈ سپیکر پر پہلے گولیوں کی آواز چلائی اور پھر اذان کی آواز۔ ان کا مقصد مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانا تھا۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ویانا کی پولیس کی گاڑی بھی ان کے ساتھ ان گلیوں میں گشت کر رہی تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جب اس واقعے کی ویڈیو ٹوئٹر پر آئی تو لوگوں نے ویانا پولیس پر خوب تنقید کی، جس کے بعد نہ صرف پولیس نے معافی مانگی بلکہ واقعے کی تفتیش بھی شروع کر دی۔

ردا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہاں کے شہری مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور سب مل کر اس واقعے پر رنج و غم کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے دیواروں پر گولیوں کے نشانوں پر گلاب کے پھول لگا دیے ہیں جبکہ جگہ جگہ پھول اور موم بتیاں جلا کر شہری ایک دوسرے کو تسلی اور من کا پیغام دے رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا