علامہ خادم رضوی: دوبارہ زندہ ہونےکی افواہیں کیسےاڑیں؟

میاں عابد کے مطابق مولانا خادم رضوی کی میت شیخ زید ہسپتال سے روانہ ہوئی تو انہیں دوبارہ مزید تسلی کے لیے اقبال ٹاؤن فاروق ہسپتال میں بھی چیک کرایا گیا، انہوں نے بھی فوت ہونے کی تصدیق کی تو پھر میت کو مرکز لایاگیا۔

(اے ایف پی)

پاکستان کی مذہبی جماعت تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کو جب جمعرات کی رات شیخ زید ہسپتال لایا گیا تو آٹھ بج کر اڑتالیس منٹ پر ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر سارہ کے مطابق وہ فوت ہوچکے تھے۔

ڈاکٹر سارہ نے رپورٹ جاری کر کے ان کی میت لے جانے کی اجازت دے دی لیکن جیسے ہی میت ہسپتال سےروانہ کی گئی اور چوک یتیم خانہ کے قریب مرکز میں پہنچی تو اس دوران ان کے زندہ ہونے کی افواہیں سوشل میڈیاپر گردش کرنے لگیں۔

ان میں شدت اس وقت آئی جب ٹی ایل پی کے آفیشل پیج پر کسی کارکن نے ان کےدوبارہ زندہ ہونے کی پوسٹ لکھی ۔

ٹی ایل پی کے مرکز میں ڈیوٹی پر معمور سینئر صحافی میاں عابد نے انڈپینڈںٹ اردو کوبتایاکہ خادم حسین رضوی کی وفات کی خبر چلتے ہی وہ ان کے مرکز پہنچ گئے اور آدھے گھنٹے بعد وہاں ایمبولینس میں ان کی میت لائی گئی، کارکنوں کا رش بہت زیادہ تھا اس لیے وہ زیادہ قریب تو نہ جاسکے لیکن مناظر دیکھتے رہے۔

اس کے کچھ دیر بعد وہاں بھی چہ میگویاں شروع ہوگیں کہ یہ افواہ کس نے پھیلائی ہے کہ وہ دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں اورایمبولینس واپس ہسپتال لے جائی جارہی ہے، جب کہ ایمبولینس تو وہیں موجود تھی کیونکہ ابھی یہ طے کیا جارہا تھا کہ ان کی میت کو آبائی علاقے اٹک لے جایا جائے یا یہیں رکھا جائے۔

بعد میں مسجد سے اعلان بھی کیاگیا کہ خادم رضوی وفات پاچکے ہیں ان کے دوبارہ زندہ ہونے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ۔

میاں عابد کے مطابق مولانا خادم رضوی کی میت شیخ زید ہسپتال سے روانہ ہوئی تو انہیں دوبارہ مزید تسلی کے لیے اقبال ٹاؤن فاروق ہسپتال میں بھی چیک کرایا گیا، انہوں نے بھی فوت ہونے کی تصدیق کی تو پھر میت کو مرکز لایاگیا۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ افواہیں سوشل میڈیا پر چلیں تو انہیں بھی نیوز روم سے فون آنے لگےکہ چیک کریں کہ مولانا دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں ۔ لیکن میں نے انہیں یقین دلایا کہ یہاں ایسا کچھ نہیں میت سامنے ایمبولینس میں موجود ہے۔

لیکن پھر بھی میں نے دوبارہ جاکر خود دیکھا تو حالات ویسے ہی تھے اور وہ بے جان گاڑی میں موجود تھے۔

سوشل میڈیا پر بیشتر صارفین نے اسے معجزہ سمجھ کر یہ افواہ پھیلاناشروع کر دی جس سے آدھے گھنٹے تک کنفیوژن جاری رہی کہ جتنے یقین سے کہا جارہاہے، شاید معجزہ ہو گیاہو۔

کئی صارفین نے لکھا کہ مولانا خادم رضوی نے سر ہلایا،بعض نے لکھاکہ انگلی ہلی ہے اور کچھ ایمبولینس  میں واپس ہسپتال لے جانےکی اطلاعات عام کرتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میاں عابد کے مطابق خادم حسین رضوی کی میت لے کر ایمبولینس جیسے ہی مرکز پہنچی وہاں پہلے سے ہزاروں کارکنان اور ان کے چاہنے والے موجود تھے۔

جبکہ ایمبولینس کے ساتھ بھی لوگوں کی بڑی تعداد آئی تو پورا علاقہ جام ہوگیا گلیاں اور سڑکیں لوگوں سے بھر گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ بلند آواز میں نعرے لگائے جارہے تھے، کارکن زاروقطار روتے دکھائی دےرہے تھے ٹریفک پولیس کو رش کے باعث ملتان روڈ سکیم موڈ سے چوک یتیم خانہ تک بند کرنا پڑی۔

انہوں نے کہاکہ ان کے اہل خانہ کیونکہ ٹی ایل پی کی مرکزی مسجد کے بالائی حصے میں رہائش پذیر تھے تو وہ اندر ہی موجود رہے۔ پھر جب فیصلہ ہوا کہ میت کو یہیں رکھنا ہے تو ان کی میت کو ایمبولینس سے نکال کر مسجد کے اندر لے جایاگیا اوران کا آخری دیدار کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔

جذبات پر قابو نہ رکھ سکنے والے کئی کارکنوں کو میت سے زبردستی دورہٹاناپڑا۔

انہوں نے کہا کہ ہر طرف آہ وبکااور رونے کی آوازیں تھی کارکن دھاڑیں مار کر روتے رہے۔

انماز جنازہ کا اعلان ہوا کہ بعد نماز جمعہ ادا ہوگی پھر ملک بھر سے آنے والے کارکنوں کی خواہش پر نماز جنازہ کاوقت تبدیل کر کے ہفتے کی صبح دس بجے کیاگیا۔

تحریک لبیک کے رہنما اعجاز اشرفی نے بھی تصدیق کی کہ مولانا خادم رضوی کے دوبارہ زندہ ہونے اور ایمبولینس واپس ہسپتال لے جانے کی خبریں افواہ تھیں کیونکہ حقیقت میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان