آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں پہلے انتخابات

گذشتہ سال منسوخ کیے گئے آرٹیکل 370 کے بعد بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں پہلی بار ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔

ڈی ڈی سی انتخابات کے ساتھ ساتھ 230 اربن لوکل باڈی (یو ایل بی) اور 12000 پنچایتی نشستوں پر ضمنی انتخاب کے لیے بھی پولنگ ہوگی (اے ایف پی)

گذشتہ سال منسوخ کیے گئے آرٹیکل 370 کے بعد بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں پہلی بار ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔

نچلی سطح پر ترقی، صحت، تعلیم اور عوامی بہبود کے لیے آٹھ مرحلوں پر مشتمل یہ انتخابات خطے کے 20 اضلاع میں 28 نومبر سے 19 دسمبر تک جاری رہیں گے جہاں ڈی ڈی سی انتخابات کے ساتھ ساتھ 230 اربن لوکل باڈی (یو ایل بی) اور 12000 پنچایتی نشستوں پر ضمنی انتخاب کے لیے بھی پولنگ ہوگی۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ریاستی حکومت کی عدم موجودگی میں یہ کونسلیں گورننس کی نئی اکائیوں کا کام کریں گی۔

گپکار ڈیکلریشن

چونکہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 سے ایک ہفتہ قبل ہی پورے خطے میں اضافی نفری تعینات کرنا شروع کی تھی جس سے خطے میں غیر یقینی صورتحال کی فضا پھیل گئی تھی اور اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا کہ بھارتی حکام کشمیر میں کیا کرنے جا رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کے عوام کے خصوصی حقوق کے تحفظ کے حامل آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بھارتی حکومت کے فیصلے کی مخالفت میں 4 اگست 2019 کو کشمیر میں مرکزی دھارے میں شامل بھارت نواز جماعتوں نے مودی حکومت کے اس یک طرفہ اقدام کے خلاف مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے تھے۔

 

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم کرنا جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف جارحیت ہوگی۔ چونکہ یہ بیٹھک  سری نگر میں واقع گوپکار علاقے میں منعقد ہوئی تھی اس لیے اسے گپکار ڈیکلریشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بھارتی حکام کی جانب سے اس خطے کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد مرکزی دھارے میں شامل نیشنل کانفرنس (این سی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) جیسی بھارت نواز جماعتوں کے رہنماؤں اور سابق وزرائے اعلیٰ کو بھی جیلوں میں بند کر دیا گیا۔

کشمیری رہنماؤں کی رہائی کے چند ماہ بعد ان میں سے بہت سے افراد کو نظربند رکھا گیا تھا اور بعد میں انہیں سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ رہائی کے بعد انفرادی طور پر بات کرتے ہوئے دو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے کہا کہ جب تک کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں ہوتی ہے وہ کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔

15 اکتوبر کو گوپکار اعلامیے پر دستخط کرنے والی مرکزی دھارے میں شامل جماعتوں نے عوامی اتحاد (پی اے جی ڈی) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا تھا جس کا مقصد حقوق کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنا اور جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو بحال کرانا شامل ہے۔

17 نومبر کو بی جے پی کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ٹویٹ کیا اور گوپکار سیاسی اتحاد کو ’گوپکار گینگ‘ قرار دیا۔

پی اے جی ڈی کی انتخابات میں شرکت 

رواں ماہ فاروق عبد اللہ کی زیر صدارت پی اے جی ڈی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آنے والے انتخابات میں حصہ لیں گے اور اس اتحاد میں شامل تمام جماعتیں مشترکہ امیدوار میدان میں اتاریں گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے امیدوار وحید الرحمن پارا کا کہنا تھا کہ ’انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ مشترکہ طور پر کیا گیا ہے اور اگرچہ اس میں اقتدار کا حصول ممکن نظر نہیں آ رہا لیکن ہم حکمراں بی جے پی کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بی جے پی کل یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ ان کو جموں و کشمیر میں قانونی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔‘

بظاہر 2014 میں پی ڈی پی جموں و کشمیر میں ریاستی حکومت کی تشکیل میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں شامل تھی تاہم ایجنڈے کے نفاذ کی ناکامی کے بعد یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا۔

وحید نے مزید کہا کہ ’ہم نے جموں و کشمیر کے حقوق کے لیے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی کیونکہ جموں میں بی جے پی کو مکمل حمایت حاصل تھی اور کشمیر میں پی ڈی پی کو۔۔۔ ہم چاہتے تھے کہ ریاست تقسیم نہ ہو لیکن آخر کار بی جے پی نے ہمیں دھوکہ دیا اور وہ (اپنے وعدوں سے) پیچھے ہٹ گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹرویو کے صرف ایک دن بعد ہی وحید کو عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ رابطوں کی تحقیق کے لیے بھارت کی نیشنل انویسٹیگیٹیو ایجنسی (این آئی اے) نے طلب کر لیا تھا اور بعد ازاں انہیں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ رابطوں کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ اب بھی 15 دنوں سے این آئی اے تحویل میں ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کے میڈیا مشیر تنویر صادق کہتے ہیں کہ ’ہم سب اکٹھے ہوئے ہیں کیوں کہ گذشتہ سال جو کچھ ہوا وہ غلط اور غیر آئینی اقدام تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ انٹرویو کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ ’ان ڈی ڈی سی انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کشمیر میں انتخابات صرف اس لیے کیا جارہا ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید عوامی اتحاد (پی اے جی ڈی) اس کا بائیکاٹ کر دے گا۔ ہمارے پاس ایسا کرنے کا آپشن موجود تھا لیکن ہم نے اس پر عمل نہیں کیا تاکہ بی جے پی جیسی فاشسٹ طاقتیں کشمیر میں حکمرانی نہ کر سکیں اور یہ ثابت نہ کر سکیں کہ پچھلے سال جو ہوا عوام نے اس کو منظور کر لیا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد اس آئین میں خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا ہے جو ہم سے چھینا گیا ہے۔ ہم تشدد کی سیاست نہیں کریں گے ہم بھارت کی اعلیٰ عدالت، سول سوسائٹی اور بھارت میں ہم خیال لوگوں تک پہنچیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا