آپ کے وقت سے برکت ختم ہو گئی ہے؟ اسے پڑھیں

لوگ ملنے ملانے سے کتراتے ہیں، مہمان نوازی نہیں رہی لوگوں میں، گھڑی گھڑی ہر کوئی گھڑی دیکھتا ہے، آتے نہیں کہ جانے کی جلدی ہوتی ہے، تو مان لیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ڈیجیٹل ٹائم ہے۔

(پرسسٹنس آف میموری- سلواڈورڈالی)

سب سے باوقار گھڑی وہ ہے جس میں سیکنڈ کی سوئی نہ ہو۔ بس دو سوئیاں ہوں، ایک گھنٹوں کی، ایک منٹ کی، گھومتی جائیں، ایک دوسرے کو باری باری کاٹتی رہیں، سکون سے وقت نکلے، دن سے رات ہو اور رات سے پھر صبح ہو جائے۔

وقت میں اصل بے برکتی اس لال سوئی نے پھیلائی ہے جو ٹک کے نہیں رہتی۔ چل رہی ہے، چل رہی ہے، او بھائی کسے اتنی جلدی ہے کہ تمہارا حساب رکھے؟ مفت کی ٹینشن، ٹک ٹک ٹک ٹک، کیا کرنا چاہتی ہو؟ سوچیں، آپ خود حساب لگائیں، یہ سیکنڈ والی سوئی نہ ہوتی، کیسا سکون ہوتا؟ پتہ ہی نہ لگتا گھڑی چل رہی ہے۔ پانچ منٹ کے بعد اندازہ ہوتا کہ ہاں کچھ حرکت ہوئی ہے، اور وہ زندگی یقینا سبحان اللہ قسم کی ہوتی۔

ابھی کیا ہے کہ ایک چیز اس سے بھی سوپرلیٹیو بے آرام قسم کی ہمارے بچپن میں نازل ہو گئی تھی۔ ڈیجیٹل گھڑی۔ کالے رنگ کی وہ کیسیو والی گھڑی بچہ بچہ ہاتھ پہ باندھے پھرتا تھا۔ اس میں سے بعض تو ایسی تھیں جن میں وہ لوگ مائیکروسیکنڈ بھی دکھاتے تھے۔ بس دو کالے نمبر ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں، ساتھ سیکنڈ والے نمبر ہانپ ہانپ کے بدل رہے ہیں اور تھوڑی دیر بعد حسب عادت منٹ والا نمبر بھی گھسیٹا جاتا ہے۔ یقین کیجیے تب سے ٹائم میں برکت اٹھ گئی ہے۔

غور کریں۔ جب ایک بجے آپ نے کہیں پہنچنا ہو اور ڈیجیٹل گھڑی 12:45 بجا رہی ہو، لگتا نہیں کہ ایک بج ہی چکا ہے؟ سر پہ کھڑا ہے وقت؟ بندہ گھبرانا شروع ہو جاتا ہے کہ ہائے ہائے یہ پینتالیس سے چھیالیس ہوا، یہ سینتالیس ہوا، یہ پچاس ہوا، اوہو بس دس منٹ رہ گئے۔

دوسری طرف جو روایتی ڈائل اور سوئیوں والی گھڑی ہے اس کا انداز ہی دیکھیں کیسا شاہانہ ہے۔ جب یہ روبوٹ قسم کی ایجاد آپ کو 12:45 دکھا رہی ہو گی اس وقت وہ شاہانہ مزاج کہے گی 'پونے ایک۔' ایمانداری سے بتائیں، پونے ایک میں جو ریلیکسیشن ہے وہ کہیں 12:47 میں نظر آتی ہے۔ ہاں، کیوں کہ لکھنے میں دو منٹ مزید نکل گئے، اب تو 12:47 ہے بہرحال۔ لیکن اس پہ نظر کریں، سوئیوں والی جانو گھڑی پہ، تو وہاں اب بھی پونے ایک ہے، بس یہ مزہ ہے۔

اسی طرح اینالاگ گھڑی میں سوا، ڈیڑھ، ڈھائی کی بھی اپنی شان ہے۔ 1:10 سے لے کر 1:20 تک بڑے آرام سے آپ سوا بجے کا کھاتہ چلا سکتے ہیں۔ یہی انصاف، یہی آرام، یہی انسانیت ہمیں ڈیجیٹل گھڑی میں بالکل نہیں ملتی۔ موبائل کی وجہ سے عام آدمی مجبور ہے کہ ٹائم ڈیجیٹل فارمیٹ سے دیکھے اور یہی مجبوری فرصت کی موت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلے زمانوں میں جو لوگوں کے پاس بڑا وقت ہوتا تھا اس کی بڑی ترین وجہ سوئیوں والی گھڑی تھی جس میں وہ پھدکنے والی سرخ بدعت اکثر شامل نہیں ہوتی تھی۔ لیٹے ہیں چارپائی پہ، حقہ پڑا ہے، تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے ہیں، گھنٹہ بس چار وقتوں میں تقسیم ہے، سوا، ساڑھے، پونے اور پھر جو بجنا ہے وہ، باقی رہے نام اللہ کا، فقٹوں کی طرح ایک ایک سیکنڈ نہیں گنتے تھے۔ ہائے ہائے، کیا وقت تھا، کیا لوگ تھے، کیا گھڑیاں تھیں۔

اب آپ کہتے ہیں لوگ ملنے ملانے سے کتراتے ہیں، مہمان نوازی نہیں رہی لوگوں میں، گھڑی گھڑی ہر کوئی گھڑی دیکھتا ہے، آتے نہیں کہ جانے کی جلدی ہوتی ہے، تو مان لیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ڈیجیٹل ٹائم ہے۔ یہ انسان کے وقت کی موت ہے۔ موبائلوں کی وجہ سے اس طرح وقت دیکھنا مجبوری ہے لیکن یہ والا ٹائم ہم سب کو اپنے ساتھ گھسیٹ رہا ہے، ہم کبھی اس پہ سواری نہیں کر سکتے، نہ! سرے سے نہیں!

مشرق کا ٹائم وہ ہو ہی نہیں سکتا جو ٹکے ٹکے کے سیکنڈوں میں بٹا ہو۔ ہماری گھڑیوں کا چھوٹے سے چھوٹا یونٹ پانچ منٹ ہونا چاہیے اصولی طور پہ۔ مطلب سوائے بلڈ پریشر بڑھانے کے، بتائیں، تین سو سیکنڈ (یہی پانچ منٹ اگر سیکنڈ میں رکھیں) 300 سیکنڈ میں آپ کیا کر لیں گے؟ اور وہ منحوس اکائی جو ایسے گر رہی ہو، 01:10:00 پھر 01:10:01 پھر 01:10:02 اور چل سو چل سو چل، استغفرللہ!

 پہلی بات تو یہ کہ گھڑیاں ہونی ہی نہیں چاہئیں۔ یہ آپ کو مجبور کرتی ہیں کہ آپ مشینی زندگی گزاریں۔ 'اوہو، سات بج کے دس منٹ ہو گئے میں بستر سے نئیں نکلا، آٹھ بجے دفتر پہنچنا ہے، اف! کیسے ہو گا؟' ایسے ہو گا کہ بھئی رات جلدی سو جائیں، صبح بغیر الارم کے اٹھیں، دیکھیں کیسا خوبصورت دن گزرتا ہے، ایک بچے کے رونے سے آنکھ کھلنا اور دوسرے یہ گھڑی کے الارم سے، خدا معاف کرے سارا دن بس ریٹائر ہی گزرتا ہے۔

ہماری نسل کے اکثر لوگوں کی لوکل فلائٹ دوپہر ڈھائی بجے ہو تو وہ گھر سے پتہ ہے ساڑھے گیارہ بجے ہی کیوں نکل جاتے ہیں؟ صرف اس گھڑی کی ٹینشن سے بچنے کے لیے۔ ٹریفک جام ہو گئی تو کیا ہو گا؟ گاڑی خراب ہو گئی تو کیا ہو گا؟ ائیرپورٹ پہ لائن لمبی ہوئی تو کیا ہو گا؟ اصل میں یہ 'تو کیا ہو گا' کیا ہے؟ یہ ڈیجیٹل ٹائم کا پھیلایا ہوا دھندا ہے۔ ساڑھے گیارہ کے بجائے گیارہ سینتیس ہو جائیں تو لگتا ہے بارہ بجے کہ بجے، بس یہ بوکھلاہٹ ائیرپورٹ دو گھنٹے پہلے پہنچا دیتی ہے، بیوی بچے، دوست یار بھلے مذاق اڑائیں لیکن چکر یہی ہے، اسے کوئی نہیں سمجھتا۔

اور ہاں، ایک چیز اور ۔۔۔ یہ جو ہم لوگوں نے ملنا جلنا کم کر لیا ہے نا، اس کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ آپ نے کسی کو شام سات بجے کا ٹائم دیا۔ سارا دن گھڑی سات بجاتی رہے گی۔ نہ سو سکتے ہیں، نہ جاگ سکتے ہیں، کہیں جائیں گے تو دماغ میں سات بجے رہیں گے، چھ بج کے تیس منٹ پہ باتھ روم میں گھسنا بند کر دیں گے کہ یار پتہ نہیں مہمان غریب پہلے پہنچ گیا تو کھڑے نہ رہنا پڑے۔ بس یہ گیم ہے۔

وقت بہرحال بہت اہم چیز ہے، اس کو تمیز سے خرچ کریں لیکن ڈیجیٹل گھڑی پر پھانسی نہ لی جائے تو بہتر ہے۔ واپس لوٹیں، اپنی اصل کی طرف، بغیر سیکنڈ والی گھڑی کی طرف، کہ جس کی بس دو سوئیاں ہوں، ایک گھنٹوں کی، ایک منٹ کی، گھومتی جائیں، ایک دوسرے کو باری باری کاٹتی رہیں، سکون سے وقت نکلے، دن سے رات ہو اور رات سے پھر صبح ہو جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ