پاکستان میں امریکی صدر کے نام پر مارکیٹ کیسے بنی؟

آگ لگنے کے باعث خاک ہونی والا شاہی بازار لاڑکانہ دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر پاکستانی صدر ایوب خان نے 50 ہزار اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے تین لاکھ روپے امداد دی۔

اگست 1961 میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کے شاہی بازار میں اچانک آگ لگی اور سب کچھ خاک بسر ہو گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ممبر اور سابقہ پاکستانی سفیر برائے قطرعبدالرزاق سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دکانداروں کی مالی مدد اور بازارکی دوبارہ تعمیر کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے اپیل کی تھی، جس کے بعد اتنی کثیر رقم جمع ہوئی کہ بازار تعمیر ہونے کہ باوجود ساڑھے پانچ لاکھ بچ گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس دستیاب مارکیٹ کو چلانے کے لیے 1964 میں ذوالفقار بھٹو کی بنائی گئی چیریٹبل ٹرسٹ کے قانونی دستاویزات کے مطابق ’فنڈ میں اس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے 50 ہزار، ڈائریکٹر آف بیسک ڈیموکریسیز خیرپور ڈویزن ایک لاکھ، میونسپل کمیٹی لاڑکانہ 35 ہزار، میونسپل کمیٹی جیکب آباد اور خیرپور دس،دس ہزار، میونسپل کمیٹی ٹنڈواللہ یارچار ہزار، تمام صنعتکار اور تاجر ایک لاکھ 96 ہزار جبکہ امریکی سفارتخانے نے تین لاکھ روپے دیے، جو کل سات لاکھ ایک ہزار 611 روپے بنے۔‘

مارکیٹ کے لیے سر شاہنواز بھٹو روڈ پر لاڑکانہ میونسپلٹی سے 28080 سکوائر فٹ پلاٹ حاصل کیا گیا اور وہاں پر لاڑکانہ کی تاریخ کا پہلا دو منزلہ جدید شاپنگ سنٹر تعمیرہوا، جس میں 38 کشادہ دکانیں اور فلیٹس بھی بنائے گئے۔

عبدالرزاق سومرو کے مطابق ’شاپنگ سنٹر کا نام جان ایف کینیڈی اس لیے رکھا گیا کہ سب سے زیادہ امداد امریکہ کی جانب سے ملی تھی۔‘

مارکیٹ کے انتظامات دیکھنے کے لیے 14 اگست 1964 میں ذوالفقار بھٹو نے اپنی چیئرمن شپ میں پبلک چیریٹبل ٹرسٹ بنائی، کمشنر لاڑکانہ، عبدالرزاق سومرو ایڈووکیٹ اور یار محمد بھٹو کو ٹرسٹیز بنایا گیا۔

 شاہی بازار اور شاپنگ سنٹر بنانے کے بعد دو لاکھ 70 ہزار کی جو رقم بچی وہ فلاحی کاموں کے لیے ٹرسٹ کے حوالے کی گئی۔

عبدالرزاق سومرو بتاتے ہیں کہ ’د کانوں سے ملنے والے کرائے سے مستحق طلبہ اور طالبات کو سکالرشپس، بیوہ عورتوں کو وظیفے، سلائی مشینیں اور پانی کے نل دیے جاتے تھے۔‘

یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے ملک پر مارشل لا مسلط کیا اور کینیڈی مارکیٹ کو ٹرسٹ سے چھین کر میونسپل کے حوالے کر دیا، مگر اس کا نام تبدیل نہیں ہوا۔

11 سال بعد 1988 میں جب بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنیں تو انہوں نے دوبارہ مارکیٹ میونسپل سے لے کر ٹرسٹ بحال کر دی اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو چیئر پرسن بنیں۔

مارکیٹ کی رونقیں بحال ہوئیں اور وہاں پرغریب عورتوں کے لیے مفت ڈسپنسری بھی قائم کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مارکیٹ میں پیپلز پارٹی کا دفتر تو شروع سے تھا اور 1996میں بینظیر بھٹو کے بھائی میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد بننے والا پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کا دفتر بھی مارکیٹ میں کھولا گیا، جبکہ دونوں جماعتوں کے سٹوڈنٹس ونگز نے بھی وہیں دفاتر بنا لیے۔

اس لیے اب مارکیٹ کی دیواریں، بند دکانوں کے شٹرز اور تاریخی گھنٹہ گھر بھی سیاسی پوسٹرز، جھنڈوں اور بینرزسے بھرے نظر آتے ہیں۔

مارکیٹ میں اندر تمام دکانیں بند پڑیں ہیں کچھ کو گوداموں میں تبدیل کیا گیا ہے اور آج کل وہاں لوگ گاڑیاں پارک کرتے ہیں۔

عبدالرزاق سومرو کہتے ہیں کہ ’جس مقصد کے لیے مارکیٹ بنائی گئی وہ ایسے ختم ہو گیا ہے کہ جیسے اب کسی کام کا نہیں رہا۔ تمام دکانیں بند پڑی ہیں، ڈسپنسری بھی ختم ہو گئی۔ اب پتا نہیں انتظامات کون دیکھتا ہے۔ ‘

اس حوالے سے میونسپل کارپوریشن لاڑکانہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مارکیٹ سے منسلک تمام تاریخی دستاویز اور تصاویر 27 دسمبر 2007 کے واقعات میں جل چکے ہیں۔ مارکیٹ کے انتظامات اب میونسپل کے نہیں پی پی پی سے منسلک لوگوں کے پاس ہیں۔ پتا نہیں دکانداروں سے کوئی کرایہ لیتا بھی ہے یا نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ