’اپوزیشن کے استعفوں سے آئینی بحران نہیں صرف دباؤ پڑے گا‘

حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بدھ کو اعلان کے بعد اپوزیشن اراکین کی جانب سے استعفے پارٹی سربراہان کے پاس جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل حزب اختلاف کی 11 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد بمشکل 160 بنتی ہے ۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو 31 دسمبر تک استعفے متعلقہ پارٹی سربراہان تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔

حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بدھ کو اس سلسلے میں اعلان کے بعد اپوزیشن اراکین کی جانب سے استعفے پارٹی سربراہان کے پاس جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

پی ڈی ایم کے استعفوں سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں میں موجود تقریباً پانچ سو اراکین کے استعفے آئندہ چند ہفتوں میں متعلقہ سپیکرز کے پاس جمع کروائے جائیں گے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اتنی بڑی تعداد میں اراکین کے مستعفی ہونے کی صورت میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں غیر فعال اور کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم رہ پائیں گی؟

ماہرین اس سلسلے میں متفق ہیں کہ حزب اختلاف کے استعفوں کی صورت میں  آئینی یا قانونی طور پر کسی بحران کا امکان موجود نہیں ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی کے مستعفی ہونے پر حکومت سیاسی دباؤ کا شکار ضرور ہو سکتی ہے۔

وفاقی حکومت رہے گی؟

معروف آئینی ماہر اور پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں موجود حزب اختلاف کے تمام اراکین کے مستعفی ہو جانے کی صورت میں بھی وفاقی حکومت اور ایوان فعال رہے گا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'اگر عمران خان موجودہ اسمبلی میں 172 اراکین کی حمایت ثابت کرلیتے ہیں تو وہ وزیر اعظم ہیں۔ اتنے اراکین موجود ہوں تو ان کی حکومت برقرار رہے گی۔'

یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت وزیر اعظم کو اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے قومی اسمبلی میں سادہ (51 فیصد) اکثریت درکار ہوتی ہے۔

اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 342 ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو ایوان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے صرف 172 اراکین کی حمایت درکار ہے جبکہ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد تقریباً 180 ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل حزب اختلاف کی 11 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد بمشکل 160 بنتی ہے اور ان اراکین کے استعفوں کی صورت میں عمران خان حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ کے وکیل کامران مرتضیٰ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ آئین کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو استعفیٰ دینے کا حق دیتا ہے اور زیادہ استعفوں کی صورت میں کسی آئینی بحران کا امکان موجود نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ استعفوں کی صورت میں حکومت کے پاس ضمنی انتخابات کا آئینی آپشن موجود ہو گا، تاہم ان کے خیال میں: 'جب اتنی بڑی تعداد میں اراکین قومی اسمبلی استعفے دیں گے تو وفاقی حکومت پر اس کا بہت بڑا اور برا سیاسی اثر ہو گا اور وفاقی حکومت کے لیے اس سیاسی دباؤ کو برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔'

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کے استعفوں کے نتیجے میں خالی ہونے والی سیٹوں کے لیے ضمنی انتخابات کروانے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔

قومی اسمبلی برقرار رہے گی؟

اعتزاز احسن نے کہا کہ قومی اسمبلی کو چلانے کے لیے محض اتنے اراکین کی ضرورت ہے جو کورم قائم رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

'قومی اسمبلی کا کورم قائم رکھنے کے لیے ایوان میں 84 اراکین چاہیے ہیں اور اتنے ایم این ایز کی موجودگی کی صورت میں ایوان کا کاروبار نہیں رکے گا جبکہ کورم کم بھی ہو اور کوئی رکن اس کی نشاندہی نہ کرے تو آئین کے تحت کارروائی چلائی جا سکتی ہے۔'

کامران مرتضیٰ نے بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: 'اگر ایوان میں کُل رکنیت کا ایک چوتھائی حصہ موجود ہو تو کورم پورا سمجھا جاتا ہے اور اسمبلی کی کارروائی ہو سکتی ہے۔'

قومی اسمبلی کو غیر فعال بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے کم از کم 259 اراکین مستعفی ہو جائیں، جس کے باعث 83 ایم این ایز رہ جائیں گے جو کسی اجلاس کا کورم قائم رکھنے کے لیے ناکافی ہیں۔

تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس 259 اراکین کی حمایت موجود نہیں ہے،  جن کے استعفوں کے ذریعے ایسی کوئی صورت حال پیدا کی جا سکے۔

صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں

سندھ کے علاوہ باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں کا معاملہ بھی وفاق ہی کی طرح ہے۔

کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے ایوان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے جو پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ کو حاصل ہے۔

صوبائی اسمبلیوں میں بھی کورم قائم رکھنے کے لیے کل رکنیت کے ایک چوتھائی اراکین کی موجودگی درکار ہوتی ہے اور سندھ کے علاوہ باقی تینوں وفاقی اکائیوں کی کسی اسمبلی میں حزب اختلاف کے پاس ایم پی ایز کی اتنی تعداد نہیں کہ استعفوں کی صورت میں کورم کا مسئلہ کھڑا ہو سکے۔

تاہم سندھ میں دوسرے صوبوں سے مختلف اور دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملے گی، جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، جو وفاق میں حزب اختلاف اور پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔

پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق اسمبلیوں سے استعفوں کی صورت میں سندھ میں حزب اختلاف کی بجائے حکومتی (پیپلز پارٹی کے) اراکین سپیکر کو استعفے دیں گے اور اسمبلی میں صرف اپوزیشن اراکین رہ جائیں گے، جن کا تعلق وفاق کی سطح پر حکومتی جماعتوں سے ہوگا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے استعفے سپیکرز کے پاس جمع کرانے سے متعلق زیادہ معلومات فراہم نہیں کیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کو پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ 31 دسمبر تک اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے استعفی پارٹی رہنماؤں کے پاس جمع کروا دیں، تاہم انہوں نےیہ  نہیں بتایا کہ یہ استعفے اسمبلی سپیکرز کے حوالے کب کیے جائیں گے۔

سینیٹ انتخابات

حزب اختلاف کی جماعتوں کے استعفوں سے متعلق فیصلے کا ایک مقصد آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو وہ 'جعلی الیکشن' ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلیوں سے سینیٹ کے انتخابات کو روکنے کے لیے الیکٹورل کالج کو توڑنا ہوگا اور سینیٹ کے الیکٹورل کالج کو توڑنا وہ 'جمہوری اور آئینی عمل کا حصہ' تسلیم کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰں نے مزید کہا: 'سینیٹ کا الیکٹورل کالج توڑنے کے لیے سٹریٹجی بنائی جا رہی ہے اور آئینی ماہرین سے بھی اس پر مشاورت کریں گے۔'

یاد رہے کہ پاکستانی ایوان بالا (سینیٹ) کے اراکین کے  انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہوتا ہے یعنی ایم این ایز اور چاروں صوبوں کے ایم پی ایز سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست