پراسرار بیماری میں مبتلا بھارتیوں کے خون میں سیسہ اور دھات

اس پراسرار بیماری کا پہلا کیس ہفتے کو ریاست آندھرا پردیش کے علاقے الورو میں سامنے آیا جبکہ اب تک سامنے آنے والے کیسز کی تعداد 500 سے زائد ہو چکی ہے۔ مریضوں میں متلی، بے چینی، مرگی، کپکپی کے ساتھ بے ہوشی جیسی علامات شامل ہیں۔

کئی مریضوں کو ہسپتال سے ٹیسٹس کے بعد برخاست کیا جاچکا ہے جبکہ 100 کے قریب افراد ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں  (تصویر: پبلک ریلیشن ڈیپارٹمنٹ گوو)

بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں پراسرار بیماری کا نشانہ بننے والے افراد کے خون میں سیسے اور دھات کی بڑی مقدار دریافت ہوئی ہے۔ محکمہ صحت کے حکام اس بیماری کی وجہ تلاش کرنے میں تاحال مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس بیماری کا پہلا کیس ہفتے کو الورو کے علاقے میں سامنے آیا جبکہ اب تک سامنے آنے والے کیسز کی تعداد 500 سے زائد ہو چکی ہے۔ اس بیماری کے مریضوں میں متلی، بے چینی، مرگی، کپکپی کے ساتھ بے ہوشی جیسی علامات شامل ہیں۔

کئی مریضوں کو ہسپتال سے ٹیسٹس کے بعد برخاست کیا جاچکا ہے جبکہ 100 کے قریب افراد ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس بیماری سے ابھی تک ایک مریض کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔

 آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس بیماری کا نشانہ بننے والوں کے خون میں سیسے اور دھات کی زیادہ مقدار کی موجودگی سامنے آئی ہے، جو ان علامات کی وجہ ہو سکتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ 'انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی (آئی آئی سی ٹی) اور باقی اداروں میں اس حوالے سے ٹیسٹس کیے جا رہے ہیں جن کے نتائج جلد متوقع ہیں۔'

الورو گورنمنٹ ہسپتال کے سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر اے وی موہن نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ 'آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی (اے آئی آئی ایم ایس) کو بھجوایا جانے والا سیمپل سائز چھوٹا ہے لیکن اس  میں مریضوں کے خون کے نمونوں میں دھات اور سیسے کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلیٰ جگ موہن ریڈی نے بھی الورو ہسپتال کا دورہ کیا جہاں 150 مریض داخل تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے گورنر سے ملاقات کرتے ہوئے اس صورت حال پر بات چیت بھی کی ہے۔ اے آئی آئی ایم ایس اور آئی آئی سی ٹی سمیت دوسرے ملکی اداروں سے اس بیماری کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ٹیمیں بھی طلب کر لی گئی ہیں۔

اس بیماری نے ماہرین طب کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں ہو سکی کہ زہریلی دھات کی یہ بڑی مقدار کہاں سے آئی ہے۔

ابتدائی طور پر آلودہ پانی کو اس کا ذریعہ سمجھا جا رہا تھا لیکن وزیر اعلیٰ کے دفتر نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ لوگ جو میونسپل واٹر سپلائی کا پانی استعمال نہیں کرتے وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں جبکہ پانی کے ابتدائی ٹیسٹس میں سے ان خطرناک مادوں کی موجودگی نہیں پائی گئی۔

حزب اختلاف کے رہنما این چندرا بابو نائیڈو نے ٹوئٹر پر 'اس واقعے کی جامع اور غیر جانب دارانہ انکوائری' کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ پراسرار بیماری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بھارت کا نظام صحت پہلے ہی بڑھتے ہوئے کرونا کیسز کی وجہ سے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ آندھرا پردیش کرونا سے بری طرح متاثر ہونے والی ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھارت کے کل 97 لاکھ کیسز میں سے آٹھ لاکھ سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت