ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں امریکہ بھر میں پر تشدد مظاہرے

ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی احتجاج کرنے والے قدامت پسند گروپس بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کر رہے ہیں کہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں صدر ٹرمپ کو جان بوجھ کر ہرایا گیا تھا۔

ہفتے کی شب ملک بھر میں جاری احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی جاری رہیں (روئٹرز)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی احتجاج کرنے والے قدامت پسند گروپس بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کر رہے ہیں کہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں صدر ٹرمپ کو جان بوجھ کر ہرایا گیا تھا۔

ہفتے کی شب ملک بھر میں جاری احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی جاری رہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی آپریٹو راجر سٹون سے منسلک ’سٹاپ دی سٹیل‘ نامی اس تحریک کے منتظمین اور چرچ کے نمائندوں نے اپنے حامیوں سے ’جیریکو مارچ‘ اور مذہبی ریلیوں میں شرکت کی اپیل کی۔

لیکن ہفتہ کی رات واشنگٹن میں ٹرمپ کے حامی ’پراؤڈ بوائز‘ گروپ کے مظاہرین اور اس کے مخالف ’اینٹیفا‘ گروہوں میں جھڑپیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کو عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے دونوں گروپس کے مظاہرین کو جھڑپوں سے روکنے کے لیے ان پر پیپر سپرے کا استعمال کیا۔

پراؤڈ بوائز، جو ایک انتہائی دائیں بازو کا پر تشدد گروہ ہے، کے تقریباً دو سو ارکان ٹرمپ ہوٹل کے قریب مارچ میں شامل ہوئے۔ سیاہ اور پیلے رنگ کی شرٹ اور ہیلمٹ پہنے یہ کارکن سفید قوم پرستی کی حمایت میں نعرے بازی کرتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل واشنگٹن پولیس نے درالحکومت کی مختلف سڑکوں کو بلاک کر کے مخالف مظاہرین کو الگ رکھنے کی کوشش کی، تاہم اندھیرہ پڑنے کے بعد مظاہرین چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر شہر کی سڑکوں پر مارچ کرتے رہے۔

مقامی میڈٰیا کے مطابق اٹلانٹا، جارجیا سمیت دیگر ریاستوں اور ملک بھر کی کمیونٹیز میں بھی مظاہرے کیے گئے جہاں ٹرمپ کے حامی مظاہرین جو بائیڈن کی انتخابی کامیابی کو رد کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔

مغربی ریاست واشنگٹن کے دارالحکومت اولمپیا میں مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ کے حامی اور مخالف مظاہرین گروپوں کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے بعد ایک شخص کو گولی مار دی گئی اور تین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

کرونا وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اموات کے باوجود ٹرمپ کے حامیوں نے ماسک پہنے بغیر انتخابی مہم کے جھنڈے اور بینرز اٹھائے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر اور دارالحکومت کی مختلف سڑکوں پر مارچ کیا۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ خود بھی طویل عرصہ تک ماسک پہنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

پچاس سے زیادہ وفاقی اور ریاستی عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں جو بائیڈن کی فتح کو برقرار رکھا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے جمعے کو ٹیکساس کی طرف سے ٹرمپ کی حمایت میں دائر ایک مقدمے کو مسترد کردیا جس میں چار ریاستوں میں ووٹنگ کے نتائج مسترد کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر اور ریٹائرڈ آرمی جنرل مائک فلین نے سپریم کورٹ کے باہر مظاہرین سے خطاب میں ٹیکساس کیس کو مسترد کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کل جو فیصلہ سنایا گیا ہے اس پر ہم سب کو تشویش ہے۔‘

فلین، جنہوں نے دو بار سابق روسی سفیر سے رابطوں کے بارے میں ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا تھا، کو ٹرمپ نے 24 نومبر کو صدراتی معافی دیتے ہوئے سزا سے بچا لیا تھا۔

صدراتی معافی ملنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا آپ پر الزام ہے کہ آپ جہاں سے آئے ہو وہاں واپس لوٹ جائیں۔‘

ریپبلکن رہمنا ڈونلڈ ٹرمپ پہلے بھی اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے انہوں نے اپنے حریف جو بائیڈن پر بڑے پیمانے پر انتخابات میں ’دھوکہ دہی‘ اور ’فراڈ‘ کے ذریعے فتح حاصل کرنے اور اسے ماننے سے انکار کیا تھا۔

نیو یارک میں اینڈریوز ایئر فورس بیس جاتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے حامی مظاہرین کی حوصلہ افزائی کے لیے تین بار صدارتی میرین ون ہیلی کاپٹر کو مارچ کے اوپر سے گزارا۔

ستمبر میں بائیڈن کے ساتھ اپنی پہلی بحث کے دوران  ٹرمپ نے ’پراؤڈ بوائز‘کی تحریک کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔

تاہم بعد میں خود پر ہونے والی تنقید کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس گروپ اور ان کے سفید فام برتری کے ایجنڈے کی مذمت کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ