سکیورٹی ادارے ہمیں اسلام آباد آنے سے نہ روکیں: مولانا فضل

بلاول بھٹو زرداری نے مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب میں کہا کہ ڈائیلاگ کا وقت ختم ہو چکا جبکہ مریم نواز نے حاضرین سے لانگ مارچ میں شرکت کا وعدہ لیا۔

پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰٗن نے اتوار کو مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں انارکی بڑھ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں عوام اور سٹیبلشمنٹ آمنے سامنے نہ آ جائیں۔

لاہور میں مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کے ’وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم‘ کرنے کے لیے جلسوں کی مہم کا آج چھٹا اور آخری جلسہ ہوا، جس میں ہر جماعت نے اپنے کارکنوں کو بھرپور شرکت کی ہدایت کی تھی۔

پی ڈی ایم نے حکومت کی جانب سے باضابطہ اجازت نہ ملنے کے باوجود پنڈال سجایا اور اپوزیشن رہنماؤں نے خطاب بھی کیے۔ جلسے کی میزبان پاکستان مسلم لیگ ن نے آج تاریخی کراؤڈ جمع کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن موقعے پر موجود صحافیوں نے اس جلسے کو ’متاثر کن لیکن غیر منظم سیاسی شو‘ قرار دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی تقریر میں زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ دفاعی قوت کو تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کے راستے سے ہٹ جائیں، عوام کو اسلام آباد اور پارلیمنٹ تک پہنچنے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں استعفے لے کر لانگ مارچ کریں گے اور ناجائز حکومت کو چلنے نہیں دیں گے، وہ ہر صورت اس حکومت کا خاتمہ کرکے دم لیں گے اور ووٹ کا تحفظ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا، زخم گہرے ہوتے جا رہے ہیں، غصہ بڑھتا جا رہا ہے، خیر خواہی کی بنیاد پر چاہتے ہیں کہ ایک ہوکر رہیں۔ ’اسی عوام میں سے عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ بنتی ہے اگر عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے تو انتشار پھیلتا ہے، ’میں آنے والے دنوں میں انارکی پھیلتے دیکھ رہا ہوں۔‘

مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ ان کی تمام جدوجہد پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے ہو رہی ہے، سٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے نتیجے میں ’ہماری آزادی داؤ پر لگ چکی ہے، ہم عہد کرتے ہیں فوج اور عدلیہ کو اس دباؤ سے آزاد کرائیں گے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے خطاب کے دوران الزام عائد کیا کہ ’پارلیمنٹ اور سینیٹ کو ایک ریٹائرڈ کرنل چلا رہے ہیں اور پورا اسلام آباد یہ بات جانتا ہے۔‘ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’کوئی فرعونی لہجے میں کہتا تھا کہ مینار پاکستان کو بھر کر دکھاؤ، دیکھ لو آج میدان اور سڑکیں بھر گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ لاہور والوں نے آج مینار پاکستان کے سائے میں نئی تاریخ رقم کی ہے۔’ لاہوریوں نے عوام دشمن قوت کو مینار پاکستان کی بلندی سے نیچے گرا دیا ہے، جعلی تبدیلی کی شروعات مینار پاکستان سے شروع ہوئی اور یہیں اس جعلی تبدیلی کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔‘

مریم نواز نے اپنی تقریر میں الزام عائد کیا کہ  پاکستان تحریک انصاف کا لاہور کے مینار پاکستان پر بڑا جلسہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے کروایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمران خان سے کہا تھا کہ ’ فکس میچ کر کے نوازشریف کو انتخابات سے باہر نکلواتے ہیں۔‘

انہوں نے عمران خان کو ’تابع دار‘ پکارتے ہوئے کہا کہ ’نوازشریف جعلی حکومت بنانے والے تابع دار کو این آر او نہیں دیں گے، وہ ملک کی ترقی چھیننے والوں کو این آر او نہیں دیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو دھاندلی اور فکس میچ سے حکومت تو مل گئی لیکن سلیکٹرز نہیں جانتے تھے کہ وہ ’اتنے نالائق اور نااہل نکلیں گے، آج عمران کی نااہلی کا جواب سلیکٹرز کو دینا پڑ رہا ہے۔‘

مریم نواز نے ایک مرتبہ پھر سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیرون ملک مبینہ کاروبار کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو چیلنج کیا کہ ’ہمت ہے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے دکھائیں۔‘

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اپنی تقریر میں عاصم باجوہ کے بیرون ملک کاروبار پر سوال اٹھایا کہ انہوں نے اربوں روپے کی سلطنت کیسے بنائی؟ عمران خان کی بہن علیمہ خان کی بیرون ملک اربوں روپے کی جائیداد کیسے بنی؟ اور کس سے پوچھیں کہ عمران خان کا فارن فنڈنگ کیس لاپتہ کیوں ہے؟

نواز شریف کی تقریر نشر کرنے پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے ان کی تقریر نیوز چینلز پر نہیں دکھائی گی، البتہ ان کی تقریر ٹوئٹر پر چلائی گئی۔

نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ 2018 کے انتخاب میں سب سے بڑی انتخابی دھاندلی ہوئی اور ’کس طرح جرنیلوں نے بیٹھ کر طے کیا کہ نواز شریف، شہباز شریف اور ن لیگ کو عبرت کا نشانہ بنانا ہے اور کس طرح ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت کو لانا ہے جو ان کے اشاروں پر آنکھیں بند کر کے ناچے اور سب نے یہ دیکھ لیا ہے۔‘

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا  کہ وہ کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیں گے لیکن ’میں پوچھتا ہوں کہ آپ سے این آر او مانگا کس نے۔ آپ اور علیمہ خان تو خود سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے این آر او پر پل رہے ہیں۔‘

دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ڈائیلاگ کا وقت ختم ہو چکا، فون کال کرنا بند کریں اب اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہو گا۔ ’ہم اسلام آباد آ رہے ہیں۔ وہاں پہنچ کر نااہل و ناجائز وزیر اعظم کو سیٹ سے ہٹا کر دم لیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آپ کو عوام کا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ لاہور سے کراچی اور پشاور تک ایک آواز  ہے کہ ووٹ پر ڈاکہ نامنظور۔‘ انہوں نے کہا کہ ملک میں حالات واقعی برے ہیں اور عوام جعلی، نااہل اور ناجائز حکمرانوں کو بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین دلاتا ہوں آپ کی فتح کا سورج طلوع ہونے والا ہے اور کٹھ پتلی حکمران گھر جانے والے ہیں۔‘

وزیر اعظم کا ردعمل

وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے پر اپنے ردعمل میں دہرایا کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹس میں کہا کہ پی ڈی ایم انہیں بلیک میل کرنے کے لیے مستقبل میں جو کرنا چاہتی ہے کر لے لیکن ان کا پیغام واضح ہے کہ ان کی حکومت کبھی این آر او نہیں دے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے انہیں بلیک میل کرنے کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا، کوشش کی اور کووڈ19 کی دوسری لہر کے دوران شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔

انتظامات کیسے تھے؟

مینار پاکستان کے اس میدان میں بڑا جلسہ کرنا ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج رہا ہے۔ لاہور کے صحافی عاصم نصیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑا سیاسی شو ضرور ہے لیکن غیر منظم بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلسے کی انتظامیہ کارکنوں کو منظم رکھنے اور پنڈال میں موجود رہنے میں ناکام رہی لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اپوزیشن اس جلسے کے ذریعے حکومت پر جو دباؤ ڈالنا چاہتی تھی وہ نہیں ڈال سکی، اس کراؤڈ سے حکومت پر دباؤ ضرور پڑے گے۔

انہوں نے کہا کہ جلد اقتدار نہ ملنے کی امید کے باوجود کارکن بڑی تعداد میں باہر نکلے ہیں، جلسہ گاہ کے اندر اور باہر بڑی تعداد میں کارکن موجود ہیں لیکن انہیں منظم کرنے کی کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دی۔

آج جلسے میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو سٹیج پر جانے سے روک دیاگیاجس پر وہ ناراض ہوکر چلے گئے۔ ملکی سیاست کی کوریج کرنے والے صحافی جاوید فاروقی نے کہاکہ سٹیج پر متحد دکھائی دینے والی جماعتیں انتظامات اور جلسے میں صرف اپنے کارکنوں کی پرواہ کرتی ہیں، نعرے بھی کارکنوں کے اپنی جماعتوں کی لائن کے مطابق ہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جماعتوں کے جلسوں کو منظم کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے، یہی وجہ ہےکہ کسی بھی جماعت کے کارکن مشترکہ جلسوں کو اپنی قیادت کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق انا کا مسئلہ نہیں سمجھتے۔

جاوید نے کہاکہ ایسے مشترکہ جلسوں میں ہر پارٹی کے کارکن صرف اپنی قیادت کا ہی خطاب سنتے ہیں اور انہیں دوسری پارٹی کے رہنماؤں کی تقریر سننے میں دلچسپی نہیں ہوتی۔

جلسے میں شرکا کا جوش وخروش

پی ڈی ایم نے ہفتہ کی شام ہی جلسے کے انتظامات مکمل کر لیے تھے۔ آج سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے گھر ظہرانے کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت جلسہ گاہ آئی لیکن شہر کے باہر سے آنے والے قافلے صبح ہی لاہور کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلسہ گاہ میں پولیس کےساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام ف کے ونگ انصار الاسلام نے سکیورٹی انتظام سنبھالے، دوسری سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے ان کے سخت رویے کی شکایات بھی کیں۔

لاہور کے ایک شہری جلیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں البتہ وہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کا خطاب سننے آئے ہیں اور انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں آئے ہیں کیونکہ آج اتوار کا دن ہے تو سوچا گھوم پھر آئیں۔

بہاولپور سے آئی پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون سیاسی کارکن کرن علی نے کہا کہ وہ پارٹی قیادت کی کال پر یہاں آئی ہیں۔ ’موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنا لازم ہے جتنی مہنگائی اور بے روزگاری ہو چکی ہے اس سے لگتاہے یہ حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے لہٰذا ہم اپنی قیادت کے ساتھ مل کر حکومت مخالف سیاسی جدوجہد کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست