صدر ٹرمپ لوگوں کی رائے کا احترام نہیں کر رہے: جو بائیڈن

پیر کو الیکٹورل کالج کی ووٹنگ میں فاتح قرار پانے کے بعد نو منتخب صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید میں کہا کہ وہ اور ان کے ری پبلکن اتحادی الیکشن نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے ’لوگوں کی رائے کا احترام نہیں کر رہے۔‘

الیکٹورل کالج میں فتح کے بعد بائیڈن نے ایک خطاب میںکہا: ’اب ایک نئے باب کو شروع کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘ (اے ایف پی)

امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ری پبلکن اتحادی الیکشن نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے ’لوگوں کی رائے کا احترام نہ کر کے‘ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

الیکٹورل کالج کی جانب سے باضابطہ طور پر اپنی فتح کی تصدیق کے بعد ایک تقریر میں ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جس میں لوگوں کی خواہش کا احترام کرنے سے انکار کیا گیا ہو۔ قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے سے انکار کیا گیا ہے اور ہمارے آئین کا احترام کرنے سے انکار کیا گیا ہو۔‘

بائیڈن کا اشارہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے دائر کردہ اس مقدمے کی جانب تھا جو الیکشن نتائج کو تبدیل کروانے کے لیے دائر کیا گیا تھا اور جسے صدر ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے۔ اس مقدمے کے ذریعے کئی اہم ریاستوں میں بائیڈن کی جیت کے فیصلے کو تبدیل کرانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن گذشتہ جمعے کو سپریم کورٹ نے اسے مسترد کردیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بائیڈن نے کووڈ 19 کے علاوہ بھرپور سیاسی دباؤ ، بدزبانی اور یہاں تک کہ جسمانی تشدد کے خطرات کے خدشات کے باوجود ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالنے پر ووٹرز کی تعریف کی۔

ان کا کہنا تھا: ’اس قوم میں ایک طویل عرصے پہلے جمہوریت کی شمع روشن کی گئی تھی۔ اور اب ہم جانتے ہیں کہ کچھ بھی یہاں تک کہ وبا یا طاقت کا غلط استعمال بھی اس شمع کو نہیں بجھا سکتا۔‘

بائیڈن نے عہدے داروں کو ہراساں کرنے کے واقعات کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ ہم پھر کبھی کسی کو اس قسم کے خطرات اور بدسلوکی کا نشانہ بنتے نہیں دیکھیں گے جیسا ہم نے انتخابات کے دوران دیکھا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے پاس عدالت میں نتائج کو چیلنج کرنے کا پورا موقع مل چکا ہے ’لیکن کسی بھی کیس میں ان کے پاس ان نتائج کو بدلنے، ان پر سوال اٹھانے یا ان کو متنازع ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔‘

 انہوں نے ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدر ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے اس پر ’ایک واضح فیصلہ‘ دے دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکٹورل کالج میں فتح کے بعد بائیڈن نے مزید کہا: ’اب ایک نئے باب کو شروع کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر قوم کی بھلائی کے لیے کام کر سکتے ہیں۔‘

پیر کو الیکٹورل کالج کی ووٹنگ میں جو بائیڈن نے رواں سال کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ پر فتح حاصل کرتے ہوئے 306 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مطابق ووٹ ڈالنے والی آخری دو ریاستوں کیلیفورنیا اور ہوائی کے الیکٹرز نے جو بائیڈن کو صدارت حاصل کرنے کے لیے درکار 270 ووٹوں سے آگے بڑھا دیا جبکہ صدر ٹرمپ کو 232 ووٹ ملے۔ 

امریکی الیکٹورل کالج کیا ہے؟

امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا انحصار صرف عوام کے ووٹوں پر نہیں ہوتا۔ جب ووٹرز صدارتی انتخاب میں اپنا ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ تکنیکی طور پر بیلٹ پر موجود امیدوار کو براہ راست ووٹ نہیں دیتے۔ اس کے بجائے الیکٹورل کالج کے نظام کے تحت شہریوں کے ووٹ ان کے ترجیحی امیدوار کے الیکڑر (electors) کے لیے گنے جاتے ہیں۔ 

انتخابات کے موقع پر جب ووٹرز ذاتی طور پر یا میل کے ذریعے اپنے ووٹ ڈالتے ہیں تو الیکشن اہلکار ان کی گنتی کرتے ہیں جس کے بعد ریاستی انتخابی عہدے دار اور گورنر ان کے نتائج کی جانچ کرتے ہوئے ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ جس کے بعد ان ریاستوں کے الیکٹورل کالج کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔

الیکٹورل کالج کے الیکٹرز  اکثریتی طور سیاسی جماعتوں کے حامی ہوتے ہیں یا مہموں کے قریبی ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا انتخاب ان کی متعلقہ پارٹیوں نے کیا ہوتا ہے اور جنہوں نے الیکٹورل کالج میں اپنی پارٹی کے متعلقہ امیدوار کے لیے ووٹ ڈالنے کا وعدہ کیا ہوتا ہے۔ 

دو ریاستوں کے علاوہ باقی سب ریاستوں میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے کو اس ریاست کے الیکٹورل کالج کے تمام ووٹ مل جاتے ہیں – شکست کے کم مارجن کے باوجود رنر اپ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

امریکی آئین کی 22ویں ترمیم کے تحت الیکٹورل کالج کے 538 ووٹ ہیں جن میں سے ایوان نمائندگان کے ہر رکن کے لیے ایک، امریکی سینیٹ کے ہر رکن کے دو اور واشنگٹن ڈی سے کے تین ووٹ ہیں۔

جب ووٹرز اپنا ووٹ ڈال دیتے ہیں اور ریاستیں ان کی تصدیق کا اعلان کرتی ہیں تو پھر دسمبر میں پر ریاست دسمبر میں الیکٹورل کالج کے اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے۔

امریکہ کی 33 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی نے قانونی طور پر الیکٹورل کالج کے ارکان کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے کو ووٹ دیں۔ جبکہ دیگر 17 ریاستوں میں الیکٹورل کالج کے ارکان کسی اور کو ووٹ دے سکتے ہیں، حالانکہ ایسے نام نہاد  ’بے وفا ارکان‘ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دیتے ہیں اور ان کی بغاوت سے ان کا ووٹ کالعدم ہو جاتا ہے۔

کیا کانگریس نتیجہ بدل سکتی ہے؟

کانگریس کے ارکان نتائج پر کیے جانے والے اعتراضات پر اپنے چیمبر میں بحث کرتے ہیں اور اس کے بعد ووٹوں کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جاتا کہ نتائج کو مسترد کرنا ہے یا نہیں۔ کسی اعتراض کو سادہ اکثریت سے دونوں ایوانوں کو پاس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ