غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے ناکام پناہ گزین کی روداد

غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں میں سے ایک صوابی کے رہائشی جواد بھی ہیں جو کچھ ماہ قبل اٹلی پہنچنے کی کوشش میں ترکی کے سرحد پر پکڑے گئے، جب کہ ان کے ہمراہ دو مہاجرین کو مزاحمت کے دوران مار دیا گیا۔

سرسبز وادی کے بیچ ایک وسیع مقام پر اپنے گھر میں چارپائی پر بیٹھے جواد انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی روداد سنا رہے تھے

نقل و حرکت انسانی زندگی کا خاصہ ہے اور اسی کی بدولت دنیا کے معاملات اور تعلقات طے پاتے ہیں۔ تاہم جدید دنیا کے حالات کے تناظر میں ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرنا اور وہاں سکونت اختیار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

جنگ و افلاس کے نتیجے میں دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے والے پناہ گزین قانونی تو کبھی غیر قانونی طور پر سرحدیں پار کرتے ہیں، جس میں اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پناہ گزینوں کے عالمی ادارے آئی او ایم کے مطابق 2019  میں کیے گئے سروے کی رو سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 272 ملین تک پہنچ گئی ہے، جو کہ 2010 کے مقابلے میں 51 ملین زیادہ ہے۔

پناہ گزینوں کے مسائل اور معاملات سے متعلق آگہی و شعور بیدار کرنے اور سیاسی رضامندگی حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ ہر سال پناہ گزینوں کا عالمی دن مناتی ہے۔ تاہم محسوس یہ ہو رہا ہے کہ شعور پھیلانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

آج بھی پاکستان کے دیہاتوں میں ’ایجنٹس‘ غربت و بیروزگاری  سے تنگ آئے نوجوانوں کو یورپی ممالک کے خواب دکھا کر ان سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں۔ نتیجتاً ہر سال کئی نوجوان نہ صرف پیسے بلکہ اکثر سرحدوں پر جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

 

ان نوجوانوں کی اکثریت کو نہ تو سرحدوں پر حالات اور معاملات کی معلومات ہوتی ہیں اور نہ ہی اپنے متعین کردہ منزل کی کوئی خبر۔ سردی اور گرمی کی شدت سے لاعلم یہ نوجوان جب حقیقت کا سامنا کرتے ہیں تب بڑی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں میں سے ایک صوابی کے رہائشی جواد بھی ہیں جو کچھ ماہ قبل اٹلی پہنچنے کی کوشش میں ترکی کے بارڈر پر پکڑے گئے، جب کہ ان کے ہمراہ دو پناہ گزینوں کو مزاحمت کے دوران مار دیا گیا۔

‘اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مجھے نہ تو راستوں کی صعوبتوں کا علم تھا اور نہ یہ جانتا تھا کہ وہاں اس قدر شدید سردی ہوگی۔ ہمیں یہ کہا گیا تھا کہ بارڈر پر ترکی کے سکیورٹی حکام پناہ گزینوں کے ساتھ خود تعاون کرتے ہیں اور انہیں راستہ دکھاتے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ انہوں نے ہم پر فائرنگ کی۔ سب بھاگنے لگے، انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔‘

خیبر پختونخوا کی سرسبز وادی کے بیچ ایک وسیع مقام پر اپنے گھر میں چارپائی پر بیٹھے جواد انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی روداد سنا رہے تھے۔

’میں ترکی کے راستے اٹلی پہنچنا چاہ رہا تھا۔ کچھ سپنے تھے جن کو پورا کرنے کی خواہش تھی۔ میں اپنے گاؤں میں درزی کا کام کرتا تھا، میں نے سنا تھا کہ اٹلی میں مہینے کے یک لاکھ ملیں گے۔ والد سے بات چھپائی اور باقی گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر روانہ ہوا۔ ہم پشاور سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے ایران داخل ہوئے۔ وہاں ایجنٹس ہمارے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ بات بات پر چاقو نکالتےاور پیسے لیتے تھے۔‘

جواد اور اس کے ساتھ  شامل دیگر غیر قانونی پناہ گزین کئی کئی دن بھوک اور سردی برداشت کرکے گروپس کی صورت میں جب ترکی کی سرحد عبور کر گئے تو ان کے مطابق وہاں کی پولیس نے ان پر فائرنگ کر دی۔

’میں نے موت کو اس قدر قریب سے دیکھا تو میں بہت گھبرا گیا۔ سردی بھی انتہا کی تھی۔ اس وقت احساس ہوا کہ کتنی بڑی غلطی کر دی ہے۔ ہمیں وہاں سے دوبارہ ایران لوٹنے کا حکم ہوا، سب لوگ بھگدڑ میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے، ہر ایک کو راستوں سے واقفیت بھی نہیں تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ترکی کے اہلکار ہمیں واپس ایران کے بارڈر پر لے گئے اور ہمیں جانوروں کی طرح مارا، ہمارے کپڑے اور دستاویزات جلائے۔ ایران سے میں اور  کچھ ہمراہی افغانستان گئے اور وہاں سے میں پاکستان لوٹ آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جواد نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی طرح غلطی کرنے سے گریز کریں، کیونکہ بجائے خطرات میں گر کر یقین کرنے سے داناؤں کی بات ماننا زیادہ بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے ملک میں محنت مزدوری کرکے تھوڑا کمانا سرحدوں پر غیر انسانی سلوک، ایجٹنس کے دھوکے کھانے اور راستوں کی صعوبتوں کو برداشت کرنے سے اچھا ہے۔

کرونا وبا کے پیش نظر اس سال انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کے حقوق پر کام کرنے والے اداروں نے پناہ گزینوں کے لیے خصوصی طور پر آواز اٹھائی اور کہا ہے کہ پناہ گزین مختلف شعبوں میں محنت اور مشقت کرکے عام لوگوں کی زندگی آسان بنانے میں اہم کردار ادار کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے وبا کے دنوں میں وہ معاشرے کے دیگر افراد کے برعکس زیادہ مسائل اور خطرات سے دوچار رہے ہیں۔

 وبا کی وجہ سے لاکھوں پناہ گزین نہ صرف نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ کئی پناہ گزینوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں تھی۔

متذکرہ احوال کے نتیجے میں اس سال منائے جانے والے عالمی یوم ہجرت کی تھیم ’پناہ گزینوں کی نقل مکانی کا ازسر نو جائزہ‘ رکھی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی